ہو گا یا نہیں؟ مگر حدیث بتاتی ہے کہ یہ شکار بھی حرام ہے۔ [1]
4۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: [وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ][2] یعنی ’’اور (تمہارے لئے یہ حرام کیا گیا ہے کہ) تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو‘‘ – لیکن حدیث اس کے ساتھ خالہ و بھانجی اور پھوپھی و بھتیجی کو بھی بیک وقت نکاح میں رکھنے سے منع کرتی ہے۔ بظاہر اس اضافہ کی کوئی بنیاد قرآن میں موجود نہیں ہے، لیکن اگر [وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ]کی علت پر غور کیا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی اصل معلوم ہو جاتی ہے۔ یعنی جس طرح دو بہنوں کو سوکنوں کی شکل میں رکھنا ان کے رشتہ اخوت کو قطع کرنے کے مترادف ہے اسی طرح خالہ و بھانجی اور پھوپھی و بھتیجی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا بھی اسی علت کا حامل ہے۔ ایک دوسرے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھی ہے: ’’وَإِذا فَعلْتُمْ ذَلِك قطعْتُمْ أَرْحَامكُم‘‘ یعنی ’’اور جب تم یہ کرو گے تو اپنی قرابتیں کاٹ ڈالو گے۔‘‘ [3]
5۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: [حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ۔۔۔وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ][4] یعنی ’’تم پر حرام کی گئی ہیں – اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری رضاعی بہنیں۔‘‘ اس آیت میں صرف دو رضاعی رشتے حرام قرار دئیے گئے ہیں حالانکہ حدیث میں ان کے علاوہ بھی متعدد رشتے رضاعت کی بنا پر حرام ہیں۔‘‘ [5]
6۔ قرآن مجید میں ایک واضح اصول کے تحت نواقض وضو کا ذکر کیا گیا ہے لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نواقضات کے علاوہ ریاح خارج ہونا اور نیند آ جانا بھی نواقض وضو میں شامل ہیں۔
اب ذیل میں چند ایسی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن میں قرآن کے ظاہری مفہوم کو حدیث کی روشنی میں ترک کر دیا جاتا ہے:
1- [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ][6] یعنی ’’اے ایمان والو! تم پر قصاص فرض کیا جاتا ہے مقتولین کے بارے میں آزاد آدمی آزاد آدمی کے عوض میں اور غلام غلام کے عوض میں اور عورت عورت کے عوض میں۔‘‘ اس آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو قتل کر ڈالے تو وہ مرد قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ قرآن اس بارے میں ساکت ہے لیکن حدیث میں یہ اضافی حکم موجود ہے کہ
|