Maktaba Wahhabi

216 - 360
الامارۃ، باب؛ 53) حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ جو کوئی ان کو چھوڑنا چاہے گا وہ ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آن پہنچے گا اور وہ اسی حال پر ہوں گے۔‘‘ [1] 6۔ ص 87 سطر 19 ’’ – روشنی ڈالی ہے۔‘‘ (سے آگے مندرجہ ذیل جملہ کو حذف سمجھیں) : ’’ان موضوعات کا تذکرہ چونکہ اوپر کے صفحات میں گزر چکا ہے، لہٰذا ہم آگے چلتے ہیں: ‘‘ 7۔ ص 187 سطر 19 ’’ – روشنی ڈالی ہے۔‘‘ (کے بعد ملاحظہ فرمائیں) لکھتے ہیں: ’’سنت: سنت کے لغوی معنی ہیں: واضح راستہ، مصروف راستہ، چلتا ہوا راستہ، پٹا ہوا راستہ اور ہموار راستہ۔ قوموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو معاملہ کیا ہے، اور جو سب کے لئے یکساں ہے، اس کو قرآن مجید میں سنت اللہ کہا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا: [سُنَّةَ اللّٰه فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللّٰه قَدَرًا مَّقْدُورًا](الاحزاب: 33: 38) یہی اللہ کی سنت رہی ہے ان لوگوں کے معاملہ میں بھی جو پہلے گزرے ہیں اور اللہ کے فیصلہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ [فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰه تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰه تَحْوِيلًا](فاطر: 35: 43) پس یہ نہیں انتظار کر رہے ہیں مگر اسی سنت الٰہی کا جو اگلوں کے باب میں ظاہر ہوئی۔ تو تم سنت الٰہی میں نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے اور نہ تم سنت الٰہی کو ٹلتے ہی ہوئے پاؤ گے۔ ہمارے زیر بحث اس وقت سنت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔ یعنی وہ طریقہ جو آپ نے بحیثیت معلم شریعت اور بحیثیت کامل نمونہ کے، احکام و مناسک کے ادا کرنے، اور زندگی کو اللہ تعالیٰ کی پسند کے سانچہ میں ڈھالنے کے لئے عملاً اور قولاً لوگوں کو بتایا اور سکھایا۔ یہ فریضہ آپ کی منصبی حیثیت کا تقاضا تھا، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: [لَقَدْ مَنَّ اللّٰه عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ](آل عمران: 3: 164)
Flag Counter