مغز و روح کے اہتمام کے ساتھ طواف سے قبل سعی کر لے یا سعی کو صفا سے شروع کرنے کے بجائے مروہ سے شروع کر دے یا کعبہ کا طواف حجر اسود کو بوسہ نہ دے کر رکن یمانی کو بوسہ دیتے ہوئے شروع کرے اور دوران طواف کعبۃ اللہ کو بائیں جانب نہ رکھ کر دائیں جانب رکھے، وعلیٰ ہذا القیاس – تو کیا ایسے شخص کے یہ تمام افعال جناب اصلاحی صاحب کی نظر میں سنت نبوی سے اپنے لاکھ ظاہری اختلافات کے باوجود بھی دائرہ سنت کے اندر ہی قرار پائیں گے؟
پھر یوم النحر کے بعض خلاف ترتیب افعال کے متعلق ارشاد نبوی ’’لَا حَرج‘‘ کا تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے کوئی عام رہنما اصول یا کلیہ نہیں بنایا جا سکتا کہ جب کسی فعل کی ظاہری شکل و صورت میں کچھ اختلاف واقع ہو جائے تو ان احادیث کا سہارا لیتے ہوئے انہیں سنت کے دائرہ کے اندر زبردستی کھینچ لایا جائے، کیونکہ بعض روایات میں ان مخصوص افعال کی تصریح موجود ہے۔ بعض روایات میں ’’لهن كلهن‘‘ کے جو الفاظ وارد ہیں تو بقول علامہ کرمانی رحمہ اللہ: ’’اس سے مراد بھی صرف وہی تمام افعال ہیں جو یوم النحر کو کئےجاتے ہیں۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ابن التین رحمہ اللہ سے ناقل ہیں کہ:
’’یہ حدیث امام مالک رحمہ اللہ کی روایت میں مذکور دونوں منصوص مسائل کے علاوہ دوسری کسی چیز کے بارے میں رفع الحرج کی متقاضی نہیں ہے کیونکہ اس سوال و جواب میں ان افعال کے سوا کوئی دوسری چیز داخل نہیں ہے۔‘‘ [1]
اب ہم جناب اصلاحی صاحب کی پیش کردہ دوسری دلیل پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جو کہ تشہد سے متعلق ہے۔ افسوس کہ جناب اصلاحی صاحب اس دلیل سے بھی اپنا مدعی ثابت کرنے میں قطعاً ناکام رہے ہیں، لیکن پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ تشہد کے بارے میں احادیث صرف حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت جابر، حضرت ابو موسی اور عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان میں سے بیشتر روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشہد کو تعلیم فرمانا ہی مروی ہے، چنانچہ ’’علماء کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہر تشہد کے جواز پر اتفاق نقل کیا ہے۔‘‘ [2]
اگرچہ تشہد کی افضلیت کے بارے میں محققین علماء کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر امام ترمذی رحمہ اللہ حضرت ابن مسعود رحمہ اللہ کی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
|