Maktaba Wahhabi

206 - 360
کچھ گناہ نہیں ہے –الخ۔‘‘ [1] اور علامہ عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ ترتیب افعال نبوی کی مطلوبیت پر علماء کا اتفاق نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مگر بعض کاموں کی تقدیم و تاخیر کے جائز ہونے کے بارے میں ان کا اختلاف ہے۔ بعض علماء اس کے اجزاء کے قائل ہیں لیکن ان کے مابین بھی بعض مواضع پر دم دینے کے وجوب پر باہم اختلاف ہے۔ مگر ظاہر حکم بعض کاموں کی تقدیم کے جواز اور دم کے عدم وجوب کا ہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ’’لَا حَرَجَ‘‘ اس پر سے گناہ اور فدیہ دونوں کے رفع ہونے کے بارے میں ظاہر ہے۔ ’’اسم الضیق‘‘ ان دونوں چیزوں پر مشترک ہے، یہی مذہب امام شافعی، جمہور سلف، علماء اور اصحاب الحدیث فقہاء کا ہے۔‘‘ [2] حاصل کلام یہ کہ جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ کہ ’’سب کا فعل سنت کے دائرہ کے اندر ہی رہا ہو گا‘‘ – قطعاً غلط اور علوم حدیث سے عدم واقفیت پر مبنی ہے۔ اگر یہ افعال ’’سنت کے دائرہ کے اندر ہی‘‘ ہوتے تو بقول امام قرطبی رحمہ اللہ ’’سعید بن جبیر، قتادہ، حسن بصری، نخعی جیسی وجیہ شخصیات اور اصحاب الرأی کسی فعل کو دوسرے فعل پر مقدم کرنے کی صورت میں وجوب دم کے قائل‘‘ نہ ہوتے اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کا ایک انتہائی فیصلہ کن اور رہنما قول ہدیہ قارئین ہے: امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ سے ناقل ہیں کہ: ’’اس ضمن میں امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول بہت قوی ہے کہ دلیل: ’’خُذُوْا عَنِّيْ مَنَاسِكَكُمْ‘‘ حج میں اتباع رسول کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ تقدیم کے متعلق وارد ان احادیث مرخصہ میں سائل کے قول ’’لَمْ أَشْعُرْ‘‘ کا قرینہ موجود ہے، لہٰذا یہ حکم خاص اس حالت کے لئے مخصوص ہو گا، اور حالت عمد کا حکم اپنے اصل یعنی حج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے وجوب پر باقی رہے گا۔‘‘ [3] اب جناب اصلاحی صاحب کے اس قول پر غور فرمائیں کہ ’’مغز و روح کے اہتمام کے ساتھ اگر فعل کی ظاہری شکل و صورت میں کچھ اختلاف ہو جائے تو اس سے فعل سنت کے دائرہ سے خارج نہیں ہو جاتا ‘‘ – راقم کے نزدیک یہ قول سنت نبوی کے خلاف ایک انتہائی خطرناک سازش معلوم ہوتا ہے۔ اس کے مضر نتائج تو کسی عامی شخص پر بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص
Flag Counter