’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ تشہد متعدد طرق کے ساتھ مروی ہے۔ تشہد کے بارے میں مروی تمام احادیث میں یہ اصح یعنی صحیح تر حدیث ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم نیز ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل رہا ہے۔‘‘
علامہ بغوی رحمہ اللہ نے بھی ’’شرح السنہ‘‘ میں صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشہد کی ارجحیت و افضلیت کے دلائل جمع کئے ہیں، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے تشہد کے بارے میں حضرت ابن عباس کی حدیث کو ’’اکمل‘‘ خیال کرتے ہوئے پسند کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نیز ان کے اصحاب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تشہد کو صرف اس وجہ سے اختیار کیا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو منبر پر سے اس تشہد کی تعلیم دی تو لوگوں (صحابہ) میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، لہٰذا یہ ان کے اجماع کے مترادف ہے۔ لیکن اب تک ایسا کوئی شخص کم از کم راقم کی نگاہ سے نہیں گزرا جس نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کسی چیز کو، خواہ وہ تشہد ہو یا کچھ اور، خلاف سنت کہنے کی جسارت کی ہو۔ پھر جب ’’مغز و روح سب میں ایک ہی ہے‘‘ تو پھر اختلاف کیسے باقی رہا؟
اس ضمن میں ایک قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے یہاں ’’تشہد سے متعلق جو روایات ہیں وہ سب فقیہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں‘‘ – لکھ کر خواہ مخواہ فقاہت راوی کی شرط پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ کیا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی حکم کو نقل کرنے کے لئے کسی صحابی کے لئے فقیہ ہونا بھی شرط ہے؟ -- اس موضوع پر ہم ان شاء اللہ باب ’’صحابہ اور مقام صحابیت – اصلاحی صاحب کی نظر میں‘‘ کے تحت تفصیلی گفتگو کریں گے۔
زیر مطالعہ باب کے اختتام پر جناب اصلاحی صاحب نے حالت نماز میں آمین بالجہر اور آمین بالسر کہنے یا اسی طرح ہاتھ باندھ کر اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کے رائج سب طریقوں کو نہ صرف قرین سنت قرار دیا ہے بلکہ ان میں سے ہر ایک کے سنت ہونے کے دلائل موجود ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ کاش اصلاحی صاحب خود اس بارے میں چند دلائل نہ سہی صرف ایک ٹھوس دلیل پیش فرما دیتے تاکہ ہم بھی اس پر کھل کر تبصرہ کر سکتے۔
بہرکیف جاننا چاہئے کہ حالت قیام میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا قطعاً خلاف سنت فعل ہے، مالکیہ کے اس عمل پر تفصیلی بحث ان شاء اللہ آگے باب ششم (’’اخبار آحاد کی حجیت‘‘) کے تحت پیش کی جائے گی، فی الحال ’’آمین بالجہر‘‘ اور ’’آمین بالسر‘‘ ’’میں سے ہر ایک کے سنت ہونے کے امکانات و قرائن بلکہ دلائل‘‘ پر مختصراً بحث پیش کی جاتی ہے:
|