تھا، لیکن یہاں اصلاحی صاحب خود اپنے ہی مقرر کردہ اصول کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
3۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب ’’روایات کے ریکارڈ‘‘ میں موجود ان اخبار آحاد کی مطابقت امت کے عملی تواتر کے ساتھ نہیں ہو رہی ہے اور کوئی معقول توجیہ بھی نہیں ہو پا رہی ہے تو جناب اصلاحی صاحب کے اصول کے مطابق تو ان روایات کو ’’ظنی‘‘ سمجھتے ہوئے ’’مجبوراً چھوڑ‘‘ دینا چاہئے تھا۔ یہ بے اصولی اور بے اعتدالی کسی طرح مناسب نہیں کہ جب اپنا مدعی ثابت کرنا ہوا تو انہی اخبار آحاد کو تمام خود ساختہ اصول بھلا کر سینہ سے لگا لیا جائے لیکن جب کبھی ان سے اپنے مقاصد یا اپنی کسی سوچی سمجھی اسکیم پر ضرب پڑنے لگے تو ان کو ’’ظنی‘‘ کہہ کر دامن جھٹک دیا جائے۔
4۔ چوتھی بات یہ ہے کہ تمام مستند احادیث کی رو سے ثابت ہے کہ یوم النحر کے چار کام اور ان کی بالترتیب ادائیگی کا مسنون طریقہ حسب تصریح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس طرح ہے:
’’یوم النحر کے کام بالاتفاق چار ہیں: جمرۃ العقبہ کی رمی، پھر جانور کو ذبح کرنا، پھر بالوں کو حلق یا چھوٹا کروانا، پھر طواف افاضہ کرنا۔ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ تشریف لائے اور جمرہ پر پہنچ کر اس کو کنکریاں ماریں، پھر منیٰ میں اپنی منزل پر تشریف لائے اور قربانی کی اور نائی سے کہا کہ بال کاٹے۔‘‘ اسی طرح ابو داؤد کی روایت میں ہے: ’’کنکریاں ماریں، پھر قربانی کی، پھر بال منڈوائے۔‘‘ علماء کا اس ترتیب کی مطلوبیت پر اجماع ہے، مگر ابن الجہم مالکی نے قارن کو اس ترتیب سے مستثنیٰ قرار دیا ہے – امام نووی رحمہ اللہ نے اجماع امت کو دلیل بنا کر ان کا رد کیا ہے۔ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے اس بارے میں ان سے اختلاف کیا ہے۔‘‘ [1]
شارح ابی داؤد، علامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ، امام نووی سے ناقل ہیں کہ:
’’یوم النحر کے افعال چار ہیں: جمرۃ العقبہ پر کنکریاں مارنا، پھر قربانی کرنا، پھر بال منڈوانا، پھر طواف افاضہ کرنا۔ ان افعال کی اس ترتیب کا اہتمام کرنا سنت ہے۔‘‘ [2]
اسی طرح جناب اصلاحی صاحب کے استاذ حدیث علامہ عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یوم النحر کے کام بالاتفاق چار ہیں: جمرۃ العقبہ پر کنکریاں مارنا، پھر جانور کی قربانی کرنا، پھر بال منڈوانا یا انہیں کتروانا، پھر طواف افاضہ کرنا۔ تمام علماء کا اس ترتیب کی مطلوبیت پر اتفاق ہے۔‘‘ [3]
|