نشاندہی کر دی گئی ہے، اب اس دلیل سے اخذ کیے گئے نتائج پر تبصرہ پیش خدمت ہے:
نحر کے دن ہر سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’لَا حَرَجَ‘‘ فرمانے کی ظاہر وجہ بقول جناب اصلاحی صاحب ’’یہی ہو سکتی ہے کہ سب کا فعل سنت کے دائرے کے اندر ہی رہا ہو گا‘‘ لیکن اصلاحی صاحب کا یہ قول متعدد وجوہ سے ناقابل قبول ہے:
1۔ پہلی وجہ یہ کہ صحابہ کے جن اعمال کا تذکرہ ’’روایات کے ریکارڈ ‘‘ میں موجود ہے، وہ جناب اصلاحی صاحب کی بتائی ہوئی ’’سنت‘‘ کی تعریف کے دائرہ میں آتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ آں موصوف کے نزدیک کسی عمل کو سنت قرار دینے کے لئے اس کا ’’عملی تواتر سے ثابت‘‘ ہونا ضروری ہے اور ’’عملی تواتر سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور صحابہ کا عمل ہے‘‘ لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی ہے کہ اس عمل کو پہلے ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہو‘‘ پھر ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے، ان سے تابعین رحمہم اللہ پھر تبع تابعین رحمہم اللہ نے سیکھا۔ اسی طرح بعد والے اپنے اگلوں سے سیکھتے چلے آئے‘‘ ہوں۔
چونکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یوم النحر کے اعمال کی ترتیب میں جو تقدیم و تاخیر ثابت ہے اور نہ ہی جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے۔ صرف چند صحابہ نے سہواً یا لاعملی کی بناء پر ایسا کر لیا تھا۔ پھر ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ و تبع تابعین رحمہم اللہ یا بعد والوں کا اپنے اگلوں سے اسے عملاً و متوارثاً سیکھتے چلے آنا محتاج ثبوت ہے۔ پس اصلاحی صاحب کے خود مقرر کردہ اصول کے مطابق بعض صحابہ کے یہ اعمال دائرہ سنت نبوی سے خارج ہو جاتے ہیں۔
جناب اصلاحی صاحب کا قول کہ: ’’سب کا فعل سنت کے دائرہ کے اندر ہی رہا ہو گا‘‘ – بتا رہا ہے کہ اس بارے میں خود اصلاحی صاحب کو بھی یقین اور شرح صدر حاصل نہیں ہے بلکہ محض احتمال ہے کہ ان صحابہ کا فعل ’’سنت کے دائرہ کے اندر رہا ہو گا۔‘‘
2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب کا مقرر کردہ دوسرا اصول یہ ہے کہ ’’اگر روایات کے ریکارڈ میں ان کی (سنت کی) تائید موجود ہے تو یہ اس کی مزید شہادت ہے۔ اگر وہ عملی تواتر کے مطابق ہے تو فبہا اور اگر دونوں میں فرق ہے تو ترجیح بہرحال امت کے عملی تواتر کو حاصل ہو گی –‘‘ جب یہ معلوم ہو چکا ہے کہ بعض صحابہ کے ان اعمال پر اصلاحی صاحب کی اختیار کردہ سنت کی تعریف کا اطلاق نہیں ہوتا تو ان کی حیثیت اصلاحی صاحب کے نزدیک محض ایک روایتی ریکارڈ کی رہ جاتی ہے، جس کی تائید خود ان کے اصول کے مطابق غیر مؤثر ہونی چاہئے۔ پھر چونکہ امت کا عملی تواتر بھی ان بعض صحابہ کے اعمال کے مطابق نہیں ہے، لہٰذا اس فرق کی بناء پر ترجیحاً امت کے عملی تواتر کو ہی اختیار کیا جانا چاہئے
|