آمدی کا قول ہے:
’’وبالجملة فضابط التواتر ما حصل العلم عنده من أقوال المخبرين لا أن العلم مضبوط بعدد مخصوص‘‘ [1]
امام الحرمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الكثرة من جملة القرائن التي تترتت عليه العلوم المجتناة من العادات‘‘ [2]
آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’وما من عدد تمسك به طائفة إلا و يمكن فرض تواطئهم علي الكذب‘‘ [3]
اور
’’فالعدد بعينه ليس مغنيا إذا يتصور معه تقدير حالة ضابطة و إيالة حاملة علي الكذب‘‘ [4]
ابن الاثیر رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’إنا بحصول العلم الضروري نتبين كمال العدد لا أنا بكمال العدد نستدل علي حصول العلم‘‘ [5]
علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ولذا كان مقيدا للعلم الضروري وهو الذي يضطر إليه الأنسان بحيث لا يمكنه دفعه ويجب العمل به من غير بحث عن رجاله ولا يعتبر فيه عدد معين في الأصح۔‘‘ [6]
پس معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی و سخاوی رحمہما اللہ کا یہ فرمانا درست ہے کہ:
’’رواۃ کی صفات علیہ عدد کی قائم مقام یا اس پر باعث اضافہ ہوتی ہیں۔‘‘ [7]
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ’’خبر متواتر‘‘ کا ’’علم الاسناد‘‘ کے مباحث سے چونکہ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ قطعی الثبوت ہونے کے باعث رجال وغیرہ کی بحث اور تحقیق و تمحیص کے تکلفات کے بغیر ہی مقبول اور واجب العمل ہوتی ہے، لہٰذا اصول حدیث میں زیر بحث نہیں آتی۔ اسی باعث حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’شرح نخبۃ الفکر‘‘ میں ’’خبر متواتر‘‘ کی شروط کو علی سبیل الابہام ذکر کیا ہے، اور اس بارے میں
|