Maktaba Wahhabi

165 - 360
علامہ شوکانی رحمہ اللہ بھی مخبرین کی کسی معین تعداد کو حصول علم کے لئے ضروری نہیں سمجھتے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’بعض اصحاب الاصول کے نزدیک مجرد اشخاص مخبرین کی کوئی معین تعداد ہی حصول علم کے لئے حکم مناط کا درجہ رکھتی ہے۔ ان میں سے بعض نے بارہ، بعض نے بیس، بعض نے چالیس، بعض نے ستر اور بعض نے اس سے بھی زیادہ کی تعداد کو اختیار کیا ہے، لیکن یہ نظریہ جمہور اصولیین کے نزدیک باطل ہے۔‘‘ [1] بعض محقق علماء کے نزدیک مخبرین کی متنوع صفات کی تاثیر اور حصول علم میں ان کی مختلف ہئیت کا اعتبار ہوتا ہے، چنانچہ ان کے نزدیک ’’تواتر‘‘ کے لئے صرف کثرت عدد ہی ضروری صفات و قرائن شمار نہیں ہوتے بلکہ اس کی حیثیت ان صفات و قرائن میں سے فقط ایک عامل کی ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک حکم تواتر کے لئے حصول علم زیادہ معتبر قرینہ ہے اور اس بارے میں راقم کا موقف بھی یہی ہے۔ اس بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لا يعتبر في التواتر عدد محصور بل يعتبر فيه ما يفيد العلم علي حسب العادة في سكون النفس إليهم وعدم تأتي التواطؤ علي الكذب منهم، إما لفرط كثرتهم و إما لصلاحهم و دينهم و نحو ذلك‘‘ [2] آں رحمہ اللہ ’’ومن الناس من لا يسمي متواترا إلا ما رواه عدد كثير يكون العلم حاصلا بكثرة عددهم فقط و يقولون: إن كل عدد أفاد العلم في قضية أفاد مثل ذلك العدد العلم في كل قضية، وهذا قول ضعيف۔ والصحيح ما عليه الأكثرون: إن العلم يحصل بكثرة المخبرين تارةً وقد يحصل بصفاتهم ولدينهم و ضبطهم وقد يحصل بقرائن تحتف بالخبر، وقال: إذا عرف أن العلم بأخبار المخبرين له أسباب غير مجرد العدد، علم أن من قيد العلم بعدد معين، وسوي بين جميع الأخبار في ذلك فقد غلط غلطاً عظيماً۔‘‘ [3]
Flag Counter