کر لینا عادتاً محال ہو، یہ کثرت اتفاقیہ ہو، اس خبر کو ابتدا سے انتہا تک ہر زمانہ میں راویوں نے اسی کثرت کے ساتھ مسلسل روایت کیا ہو، اور وہ خبر ان راویوں کی حس یعنی مشاہدات و مسموعات کے اعتبار سے انتہائی مستند ہو، کے ساتھ اگر پانچویں شرط یہ بھی شامل کر دی جائے کہ ان کی یہ خبر سامع کو علم کا فائدہ پہنچاتی ہو تو یہ خبر متواتر ہے۔‘‘
اس اضافی شرط کا تذکرہ حافظ رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں بھی کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’وہ خبر علم یقینی کا فائدہ دیتی ہو۔‘‘ [1]
اس اضافی شرط کا تذکرہ آں رحمہ اللہ نے اس لئے ضروری سمجھا ہے کہ بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر کسی خبر میں مذکورۃ الصدر پہلی چار شرائط پائی جائیں تو ان سے لازماً صحت خبر کا علم حاصل ہوتا ہے لیکن حق یہ ہے کہ ایسا ہمیشہ نہیں بلکہ اکثر اور غالب حالات میں ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی امر مانع کی وجہ سے اس خبر سے صحت کا علم حاصل نہیں ہوتا، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وقد يقال: إن الشروط الأربعة إذا حصلت استلزمت حصول العلم وهو كذلك في الغالب لكن قد يختلف عن البعض لمانع وقد وضع بهذا التقرير تعريف المتواتر۔‘‘ [2]
اگر کسی خبر میں مذکورہ چاروں شرائط تو موجود ہوں لیکن ان سے صحت کا علم حاصل نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ ’’خبر متواتر‘‘ نہیں بلکہ ’’مشہور‘‘ کہلائے گی، کیونکہ ہر ’’متواتر خبر‘‘، ’’مشہور‘‘ تو ہو سکتی ہے لیکن ہر ’’خبر مشہور‘‘ کا متواتر ہونا لازم نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وما تخلفت إفادة العلم عنه كان مشهورا فقط فكل متواتر مشهور من غير عكس‘‘ [3]
امام سخاوی، حافظ رحمہ اللہ سے ناقل ہیں:
’’إن كل متواتر مشهور ولا ينعكس‘‘ [4]
یعنی ’’ہر متواتر حدیث بلاعکس مشہور ہوتی ہے۔‘‘
حافظ رحمہ اللہ کی اتباع میں امام سخاوی رحمہ اللہ بھی رواۃ کی کسی معین تعداد یا ان کے مخصوص وصف کو ’’تواتر‘‘ کے لئے شرط نہیں سمجھتے جیسا کہ آں رحمہ اللہ کے ان الفاظ سے واضح ہے:
’’غير محصورين في عدد معين ولا صفة مخصوصة‘‘ [5]
|