Maktaba Wahhabi

163 - 360
سب کا جھوٹ پر جمع ہو جانا عادتاً محال نظر آئے۔ پھر آں رحمہ اللہ نے اس کثرت رواۃ کے وقوع کو بھی بلا قصد اور محض حسن اتفاق ہونے کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ آگے چل کر حافظ رحمہ اللہ تواتر کی بعض دوسری شرائط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فإذا أورد الخبر كذلك و انضاف إليه أن يستوي الأمر فيه في الكثرة المذكورة من ابتدائه إلي انتهائه والمراد بالاستواء أن لا تنقص الكثرة المذكورة في بعض المواضع لا أن لا يزيد إذا الزيادة هنا مطلوبة من باب الأولي و أن يكون مستند انتهائه الأمر المشاهد والمسموع لا ما ثبت بقضية العقل الصرف۔‘‘ [1] یعنی ’’پس جب کوئی خبر ایسی ہو اور اس میں یہ مزید صفت بھی پائی جاتی ہو کہ مذکورہ کثرت ابتدا سے انتہا تک ہر دور میں یکساں ہو (تو اسے خبر متواتر قرار دیا جائے گا) اور کثرت کی یکسانیت سے مراد یہ ہے کہ کسی دور یا طبقہ میں مذکورہ کثرت میں کمی واقع نہ ہو۔ لیکن اگر کسی دور میں اس کثرت میں اضافہ ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ یہ اضافہ ہمارے اصل مطلوب کے لئے مزید تقویت کا باعث ہو گا۔ اور یہ کہ وہ خبر حسی اعتبار، یعنی مشاہدات و مسموعات سے انتہائی مستند ہو، ایسی نہ ہو کہ جس کا ادراک عقل و ذہن سے کیا جاتا ہے۔‘‘ مذکورہ کثرت کی یکسانیت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباری‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’سند کی ابتداء، وسط اور انتہا میں رواۃ کی کثرت (برقرار) ہو۔‘‘ [2] اور حسی اعتبار سے مستند ہونے کے متعلق فرماتے ہیں: ’’حدیث امور حسیہ یعنی مشاہدہ یا سماع سے مستند ہو۔‘‘ [3] حافظ رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب ’’شرح نخبۃ الفکر‘‘ میں ان تمام شروط کو یکجا ذکر کرتے ہوئے خبر متواتر کے مفید علم ہونے کی ایک اضافی شرط یوں بیان کرتے ہیں: ’’فإذا جمع هذه الشروط الأربعة وهي عدد كثير أحالت العادة تواطأهم و توافقهم علي الكذب رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلي الانتهاء وكان مستند انتهائهم الحس و انضاف إلي ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه فهذا هو المتواتر۔‘‘ [4] ’’پس اگر ان چاروں شرائط، یعنی راویوں کی اتنی بڑی تعداد کہ جن سب کا جھوٹ پر اتفاق
Flag Counter