Maktaba Wahhabi

162 - 360
’’تواتر کے لئے رواۃ کی کوئی معین تعداد شرط نہیں ہے۔‘‘ [1] اور ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أحد الشروط التواتر إذا وردت بلا حصر عدد معين بل تكون العادة قد أحالت تواطأهم علي الكذب‘‘ [2] یعنی ’’تواتر کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اس کے رواۃ کسی عددی قید سے بالاتر اس قدر زیادہ ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً و عادتاً محال ہو۔‘‘ حافظ رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’و تلك الكثرة أحد شروط التواتر إذا وردت بلا حصر عدد معين بل تكون العادة قد أحالت تواطأهم علي الكذب، وكذا وقوعه منهم اتفاقا من غير قصد فلا معني لتعيين العدد علي الصحيح، ومنهم من عينه في الأربعة، وقيل: في الخمسة، وقيل: في السبعة، وقيل: في العشرة، وقيل: في الاثني عشر، وقيل: في الأربعين وقيل: في السبعين، وقيل: غير ذلك، وتمسك كل قائل بدليل جاء فيه ذكر ذلك العدد فأفاد العلم و ليس بلازم أن يطرد في غيره لاحتمال الاختصاص‘‘ [3] یعنی ’’متواتر حدیث کے لئے ایک شرط کثرت اسانید ہے لیکن اس کثرت کے لئے کوئی خاص تعداد معین نہیں ہے بلکہ صرف یہ بات کافی ہے کہ اتنے راویوں کا جھوٹ پر جمع ہو جانا عادتاً محال نظر آئے اور ان کی اس کثرت کا وقوع حسن اتفاق سے اور بلا قصد ہو۔ لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ تواتر کے لئے کسی خاص تعداد کی تعیین لایعنی ہے۔ لیکن محدثین میں سے بعض نے تواتر کے لئے چار، بعض نے پانچ، بعض نے سات، بعض نے دس، بعض نے بارہ، بعض نے چالیس، بعض نے ستر وغیرہ کی تعداد معین کی ہے اور ان میں سے ہر قائل نے اپنی تائید میں اس دلیل کو بیان کیا ہے جس میں یہ عدد مذکور ہے اور اس سے علم کا فائدہ ہوا ہے لیکن ضروری نہیں کہ جو تعداد ایک جگہ مفید علم ہو وہ دوسری جگہ بھی اسی طرح مفید ہو کیونکہ ہر جگہ اختصاص کا احتمال ہے۔‘‘ اقتباس بالا میں حافظ رحمہ اللہ نے شرط تواتر کے لئے رواۃ کی کم از کم تعداد کو یہ کہہ کر مبہم چھوڑ دیا ہے کہ راویوں کی کثرت کے لئے کوئی خاص تعداد معین نہیں ہے، البتہ اتنی ضرور ہو کہ ان
Flag Counter