Maktaba Wahhabi

161 - 360
جناب عبدالرحمان بن عبیداللہ رحمانی فرماتے ہیں: ’’تواتر کی چار شرطیں ہیں اول یہ کہ اس کو کثیر تعداد نے بلا حصر روایت کیا ہو، دوم یہ کہ ابتداء سے انتہاء تک ہر طبقہ سند کے رواۃ نے اس کو روایت کیا ہو، سوم یہ کہ عقل کے نزدیک ان تمام رواۃ کا کذب پر متفق ہونا محال ہو، اور چہارم یہ کہ ان کی خبر باعتبار حس انتہائی مستند ہو۔‘‘ [1] اوپر آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ڈاکٹر محمود طحان نے کثرت رواۃ کے لئے کم از کم دس راویوں کی تعداد کو راجح قرار دیا ہے جبکہ پروفیسر مصطفیٰ اعظمی نے کم از کم چار راویوں کی تعداد کو بھی کافی سمجھا ہے۔ اسی طرح بعض علماء نے تواتر کے لئے کم از کم پانچ، بعض نے سات، بعض نے دس، بعض نے بارہ، بعض نے چالیس، بعض نے ستر اور بعض نے اس سے بھی زیادہ راویوں کی تعداد کو شرط بیان کیا ہے، جیسا کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے: ’’قاضی باقلانی کا قول ہے: تواتر کے لئے چار افراد کافی نہیں لیکن اس سے زیادہ ٹھیک ہیں، آں رحمہ اللہ نے پانچ پر توقف فرمایا ہے۔ اصطخری کا قول ہے کہ کم از کم دس افراد ہوں اور یہی پسندیدہ مذہب ہے، بعض نے چالیس، بعض نے ستر کی تعداد بیان کی ہے کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے اصحاب ستر تھے۔ بعض نے تین سو دس سے کچھ زائد کی تعداد بیان کی ہے کہ یہ اصحاب طالوت اور اہل بدر کی تعداد تھی‘‘ –[2]امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تواتر کے لئے رواۃ کی مختلف تعداد کا تذکرہ کرتے ہوئے ان سب اقوال کو باطل قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’و أما عدد ما يحصل به التواتر فمن الناس من جعل له عددا محصورا ثم يفرق هؤلاء، فقيل: أكثر من اربعة، وقيل: اثنا عشر، وقيل: أربعون، و قيل: سبعون و قيل: ثلثمائة و ثلاثة عشر، وقيل غير ذلك۔ وكل هذه الأقوال باطلة لتكافئها في الدعوي‘‘ (مجموع فتاوی 18/50) بعض اور مقامات پر آں رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’و أما المتواتر فالصواب الذي عليه الجمهور أن المتواتر ليس له عدد محصور بل إذا حصل العلم عن إخبار المخبرين كان الخبر متواترا۔‘‘ (نفس مصدر 18/40، 50) اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ان میں سے کسی بھی مخصوص تعداد کی تعیین کی نفی کی ہے چنانچہ فرماتے ہیں:
Flag Counter