Maktaba Wahhabi

167 - 360
خود فرماتے ہیں: ’’و إنما أبهمت شروط التواتر في الأصل لأنه علي هذه الكيفية ليس من مباحث علم الإسناد إذ علم الإسناد يبحث فيه عن صحة الحديث و ضعفه ليعمل به أو يترك به من حيث صفات الرجال وصيغ الأداء والمتواتر لا يبحث عن رجاله بل يجب العمل به من غير بحث۔‘‘ [1] علامہ ابن حنبلی حنفی وغیرہ نے بھی ’’خبر متواتر‘‘ کے رجال کو صحت حدیث کی ایک بنیادی شرط عدالت سے مستثنیٰ بیان کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’ثم هو بقسمية مفيد للعلم الضروري لا النظري و غير محصور في عدد معين و موجود وجود كثرة لا معدوم ولا موجود وجود قلة خلافا لمن زعم ذلك۔ ومتي استوفيت شروطه و تخلفت إفادته العلم عنه فلمانع آخر لا بمجرده ومن شأنه أن لا يشترط عدالة رجاله بخلاف غيره‘‘ [2] اور علامہ سخاوی فرماتے ہیں: ’’لا يبحث عن رجاله لكونه لا دخل لصفات المخبرين فيه‘‘ [3] بعض علمائے اصول نے ’’خبر متواتر‘‘ کے رجال کے متعلق اس قدر وسعت دی ہے کہ ان کے نزدیک: ’’تواتر کے لئے اسلام بھی شرط نہیں ہے۔‘‘ [4] لیکن یہ وسعت انتہائی قبیح اور ایک نہایت غیر دانشمندانہ بات ہے۔ علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام نووی رحمہ اللہ کی شرح صحیح مسلم میں ہے کہ کسی خبر متواتر کے لئے راویوں کا مسلمان ہونا شرط نہیں ہے۔ ائمہ اصول کا بھی یہی قول ہے، لیکن یہ بات مخفی نہیں ہے کہ یہ اصطلاح صرف اصولیوں کے نزدیک ہے، محدثین کی اصطلاح یہ ہے کہ خبر متواتر متعدد مسلمانوں سے مروی ہے کیونکہ ان کے نزدیک جن کی روایت سے احتجاج کیا جا سکتا ہے ان کا عادل، ضابط، مسلم اور بالغ ہونا شرط ہے، لہٰذا باب الاخبار میں کسی کافر کی روایت قبول نہیں کی جا سکتی خواہ وہ کتنی ہی کثیر تعداد سے کیوں نہ پہنچے۔ جمع الجوامع مع شرح
Flag Counter