Maktaba Wahhabi

148 - 360
حجام کو ایک دینار دیا۔‘‘ [1] یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام نے اپنی تصانیف میں اس بارے میں مستقل ابواب قائم کئے ہیں، مثال کے طور پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب کو یوں معنون فرمایا ہے: ’’باب الإقتداء بأفعال النبي صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘[2]اور امام ہیثمی رحمہ اللہ نے ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد‘‘ میں ایسا ہی ایک باب اس عنوان کے ساتھ مقرر کیا ہے: ’’باب اتباعه في كل شئ‘‘ [3] 3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى أكُونَ أحَبَّ إلَيْهِ مِن والِدِهِ ووَلَدِهِ والنَّاسِ أجْمَعِينَ‘‘ (رواه الشيخان) یعنی ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد اس کے والدین اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ آں صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا طریقہ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کے طریقہ زندگی کی ہر چھوٹی یا بڑی چیز کو اپنایا جائے، آپ کو بہترین اور کامل ترین نمونہ مان کر طریقہ نبوی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کی جائے، اپنے اخلاق اور اپنی عادتوں کو آپ کے اخلاق کریمہ اور عادات جمیلہ کے مطابق سنوارا جائے، اور آپ کے شمائل کریمہ کے جواہر ریزوں کو اپنی ہدایت کا ذریعہ بنایا جائے۔ ان چند دلائل کے ساتھ اگر ’’سنت کی اصطلاحی تعریف‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت بیان کی گئی مشہور محدث ابن أبی العاصم، امام سخاوی، علامہ جمال الدین قاسمی اور علامہ حسن احمد خطیب وغیرہم کی تعریفوں پر بھی غور کیا جائے تو ہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر ہر گوشہ ہمارے لئے ایک مستقل سنت ہے، خواہ اس کا تعلق آپ کی عبادات سے ہو یا آپ کی ذاتی انسانی زندگی اور عادات سے، واللہ اعلم۔ اگر کوئی شخص محترم مودودی صاحب کے منقولہ بالا تینوں اقتباسات پر غیر جانبداری کے ساتھ غور کرے تو اسے ایسا محسوس ہو گا کہ یہ متضاد اقوال کسی ایسے شخص کے ہیں جو یا تو امت کے نزدیک معروف سنت کی اصطلاحی تعریف سے قطعاً لاعلم تھا یا پھر حد درجہ فکری اضطراب (Confusion) کا شکار، کہ کبھی کچھ کہتا تھا اور کبھی کچھ اور۔ خلاصہ یہ کہ عام محدثین، فقہاء، اصولیین اور محقق علمائے متاخرین، کہ جنہیں اس فن سے شغف رہا ہے، کے نزدیک ’’حدیث‘‘ اور ’’سنت‘‘ کے مابین کوئی مغایرت نہیں ہے، بلکہ دونوں اصطلاحوں کا مفہوم و مطلب بالکل مترادف و متساوی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک اصطلاح کو دوسری اصطلاح کے مقام پر بلاتکلف اور بلا امتیاز و تفریق استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے محدثین اور علماء کی ایک
Flag Counter