رضی اللہ عنہا کے کہنے پر آں صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے درمیان تشریف لائے اور آپ نے حلق و قربانی فرمائی تو صحابہ کا یہ عالم تھا کہ وہ بھی فوراً حلق و قربانی کے لئے لپک پڑے۔ اسی طرح فتح مکہ کے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے تو تمام مسلمان روزہ دار تھے، لیکن جب آپ کو لوگوں پر روزہ سخت گزرنے کا علم ہوا تو عسفان کے مقام پر پہنچنے پر آپ نے پانی کا پیالہ منگایا اور اپنی سواری پر اسے بلند کر کے نوش فرمایا، آپ کو روزہ افطار کرتے دیکھ کر تمام صحابہ نے بھی روزہ افطار کر لیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک باب یوں قائم کیا ہے: ’’باب من أفطر في السفر ليراه الناس‘‘[1]اسی طرح جب صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کچھ کھائے پئے روزہ پر روزہ (صوم و صال) رکھتے دیکھا تو خود بھی اس پر عمل کرنے لگے، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ازراہ شفقت منع فرمایا، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’’ نَهَى رَسولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عليه وسلَّمَ عَنِ الوِصَالِ رحمة لَهُمْ فَقَالُوْا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ، قالَ : إنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ إِنَّيْ يُطْعِمُنِي رَبِّي ويَسْقِينِ ‘‘ [2]
یعنی ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو مہربانی اور شفقت کی وجہ سے وصال سے منع فرمایا تو لوگوں نے کہا کہ آپ تو وصال فرماتے ہیں۔ آں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے جیسا نہیں ہوں، مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘ مجاہد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے جب ایک مقام سے گزرے تو وہ ذرا دور ہٹ گئے، کسی نے سوال کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا، لہٰذا میں نے بھی ایسا کیا ہے۔‘‘ [3] اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق مروی ہے کہ وہ مکہ و مدینہ کے درمیان ایک درخت پر پہنچے تو آپ نے اس کے نیچے کچھ دیر آرام فرمایا اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس مقام پر) آرام فرمایا تھا۔‘‘ [4] اسی طرح زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو محلول الازرار دیکھا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح محلول الازرار دیکھا تھا۔‘‘ [5]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’خدمت رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم عَشر سِنِيْن فَمَا قَالَ لِيْ أُف قَط وَمَا قَالَ لِيْ لِشيء صنعته لَمْ صنعته؟ وَلَا لِشيء تَرَكْته: لَمْ تَرَكْته؟ وَكَانَ رَسُوْل اللّٰه صلي اللّٰه عليه من أَحسن الناس خلقا‘‘ [6]
آں رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے:
|