’’تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ موجود تھا۔‘‘ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو مکمل اور کلی طور پر ’’اسوہ حسنہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ جب یہ آیت ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ بحیثیت نبی تو آپ بہترین نمونہ ہیں لیکن، نعوذ باللہ، بحیثیت ایک انسان آپ کا وہ مقام نہیں ہے جو کہ اس آیت میں مذکور ہے، تو میں پوچھتا ہوں کہ ان حضرات کے پاس کون سی ایسی نص موجود ہے جس کی بناء پر وہ آیت کے اس عمومی مفہوم کی تخصیص کرتے ہیں؟ 2۔ بعض احادیث میں ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّمَا بُعِثتُ لِأُتمم صَالِح الأخْلَاق‘‘[1]اسی طرح جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی شخص نے آپ کے اخلاق کے متعلق استفسار کیا تو آں رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ کی عادت و اخلاق قرآن کی جیتی جاگتی تفسیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کرتے دیکھتے خود بھی ویسا ہی کرنے لگتے تھے، نہ خود کبھی اس چیز پر غور کرتے تھے کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام بحیثیت نبی کر رہے ہیں یا بحیثیت انسان؟ اور نہ ہی پورے ذخیرہ احادیث میں ایسی کوئی چیز ملتی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ کبھی کسی صحابی نے آپ سے آپ کے کسی فعل کے بارے میں استفسار کیا ہو کہ آپ کا یہ فعل کس حیثیت سے ہے؟ برخلاف اس کے جو چیز اس قصیر العلم کو نظر آئی وہ یہ ہے کہ صحابہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی دل و جان سے زیادہ عزیز تھی، زندگی کے ہو گوشہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اپنا Ideal (مثالی کردار) تصور کرتے تھے، ہر شخص زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا کہ جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتا دیکھے بلا چوں و چرا خود بھی ویسا ہی کرنے لگے، اور جس چیز سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رکتا دیکھے خود بھی اس سے باز آ جائے۔ یہاں مثال کے طور پر صحابہ کرام کی زندگی کے چند واقعات پیش خدمت ہیں: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اتباع سنت کا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’ اتَّخَذَ رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم خَاتَمَ الذَّهَبِ، فَلَبِسَهُ رَسُولُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم، فَاتَّخَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَ الذَّهَبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: إِنِّي كُنْتُ أَلْبَسُ هَذَا الْخَاتَمَ، وَإِنِّي لَنْ أَلْبَسَهُ أَبَدًا، فَنَبَذَهُ، فَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَهُمْ ‘‘ [2] یعنی ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سونے کی انگوٹھی پہنی تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں پہن لیں۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے سونے کی انگوٹھی لے لی ہے پھر اسے اتار دیا اور فرمایا کہ آئندہ میں اسے ہرگز نہ پہنوں گا تو تمام صحابہ نے بھی اپنی انگوٹھیاں فوراً اتار دیں۔‘‘ اسی طرح ایک مرتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت نماز میں اپنے نعل مبارک اتارے تو تمام صحابہ نے بھی اپنے نعلین اتار دئیے تھے، صحابہ کی فدویت کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں: جب صلح حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو احرام کھول کر وہیں حلال ہو جانے کا حکم دیا تو بعض صحابہ کو کچھ تردد ہوا، لیکن جب ام سلمہ |