جناب سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کے نزدیک ’’حدیث‘‘ و ’’سنت‘‘ کے درمیان اصولی فرق یہ ہے کہ:
’’حدیث سے مراد وہ روایات ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے متعلق سند کے ساتھ اگلوں سے پچھلوں تک منتقل ہوئیں۔ اور سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قولی اور عملی تعلیم سے مسلم معاشرے کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں رائج ہوا، جس کی تفصیلات معتبر روایتوں سے بھی بعد کی نسلوں کو اگلی نسلوں سے ملیں، اور بعد کی نسلوں نے اگلی نسلوں میں اس پر عملدرآمد ہوتے ہوئے بھی دیکھا‘‘ [1]
جناب مودودی صاحب کا یہ قول بھی دراصل جناب سید سلیمان ندوی صاحب کی فکر ہی سے ماخوذ ہے۔ آں محترم نے بھی یہاں ’’سنت‘‘ کے دائرہ کو اس قدر سکیڑ دیا ہے کہ اگر اس تعریف کو درست مان لیا جائے تو صرف کچھ ہی متواتر یا متوارث اعمال عبادت سنت کے دائرہ میں آ سکیں گے، لہٰذا آں موصوف کا یہ قول بھی شاذ اور ناقابل قبول قرار پائے گا۔
ایک اور موقع پر آں موصوف نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’سنت اس طریقے کو کہتے ہیں جسے حضور نے خود اختیار فرمایا اور امت میں اسے جاری کیا۔ سنت کے لفظ کا اطلاق اس امر واقعی پر ہوتا ہے جو حضور سے ثابت ہے۔ اس کے برعکس حدیث سے مراد وہ روایات ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کیا کیا اور کس چیز کو کرنے کا حکم دیا۔ اس لحاظ سے حضور کی پوری زندگی کا طور طریقہ سنت ہے۔ آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں، اخلاق، تہذیب، عبادات، معاملات کے متعلق جو کچھ تلقین کی اسے آپ کی سنت کہا جائے گا۔ حدیث کا اطلاق متعدد چیزوں پر ہوتا ہے۔ علم حدیث کو بھی حدیث کہتے ہیں، احادیث کے مجموعے کو بھی حدیث کہتے ہیں۔ ایک ایک حدیث کو بھی حدیث کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔ حدیث کے مختلف مجموعوں کو بھی حدیث کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ احادیث کے تمام مجموعوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، اور کوئی ہوش مند آدمی یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ سارے ذخیرہ احادیث میں جو کچھ درج ہے، اسے بلا چوں و چرا سنت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے۔‘‘ [2]
لیکن مجھ قصیر العلم کی نگاہ میں یہ آخری اعتراض قطعاً لغو ہے کیونکہ ’’سارے ذخیرہ احادیث میں جو کچھ درج ہےاسے بلا چوں چرا سنت کی حیثیت سے تسلیم‘‘ کرنے کا مطالبہ کون بے وقوف کرتا ہے؟ ذخیرہ احادیث میں سے جتنا اور جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مروی ہے اگر وہ صحت کے درجہ پر پہنچے تو اسے رسول اللہ کی سنت ہی کہا جائے گا اور جو کچھ خلفائے راشدین یا دوسرے صحابہ سے بسند صحیح ثابت ہو اسے خلفائے راشدین یا صحابہ کی سنت کہا جائے گا۔ گویا اصل معیار صحت کا اثبات ہے نہ کہ فقط کتاب احادیث میں بار پا جانا۔
|