نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل و تقریر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال سبھی پر ہوتا ہے۔‘‘ [1]
جب کہ بقول علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب وغیرہ ’’حدیث کو وہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔‘‘ [2]
مگر امام سخاوی رحمہ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’فهو (الحديث) أعم من السنة‘‘ [3]
’’حدیث‘‘ و ’’سنت‘‘ کے مابین فرق پر محدثین کے بعض اقوال سے استدلال کیا جاتا ہے مثلاً بعض کہہ دیتے ہیں کہ ’’هذا الحديث مخالف للقياس والسنة والإجماع‘‘ یعنی ’’یہ حدیث قیاس و سنت اور اجماع کے خلاف ہے –‘‘ بظاہر اس قول میں ’’حدیث‘‘ کو ’’سنت‘‘ کے مقابلہ میں ذکر کیا گیا ہے جو فرق و تفاوت پر دلالت کرتا ہے یا اسی طرح بعض نفوس کے متعلق محدثین کہہ دیا کرتے ہیں کہ ’’إمام في الحديث و إمام في السنة، إمام فيهما ‘‘[4]– جیسا کہ عبدالرحمان بن مہدی رحمہ اللہ کا یہ قول ہے: ’’سفيان الثوري إمام في الحديث و ليس بإمام في السنة والأوزاعي إمام في السنة وليس بإمام في الحديث و مالك إمام فيهما‘‘[5]اور امام شافعی رحمہ اللہ کا تو مشہور اصول ہے: ’’تختلف الأحاديث فآخذ بعضها استدلالا بكتاب أو سنة أو إجماع أو قياس‘‘ (الرسالہ ص 373) یعنی ’’احادیث باہم مختلف بھی ہوتی ہیں، تو میں ان میں سے قرآن یا سنت یا اجماع یا قیاس کی مدد سے استدلالاً کچھ کو ترجیحاً لے لیتا ہوں۔‘‘
’’حدیث‘‘ و ’’سنت‘‘ کے مفہوم میں ایک فرق یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کی لفظی روایت ’’حدیث‘‘ کہلاتی ہے جب کہ ہم تک عمل متواتر کے ذریعہ منقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی کیفیت کا نام ’’سنت‘‘ ہے۔
واضح رہے کہ یہاں لفظی روایت کے تواتر کی شرط بیان نہیں کی گئی ہے کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ کوئی چیز عملاً متواتر تو ہو لیکن لفظاً متواتر نہ ہو۔ پس عمل متواتر کا طریقہ ’’سنت‘‘ کہلاتا ہے جیسا کہ جاوید احمد غامدی اور سید سلیمان ندوی وغیرہما کا قول ہے۔ لیکن یہاں ’’سنت‘‘ کے لئے عملاً متواتر ہونے کی جو شرط بیان کی گئی ہے وہ ائمہ حدیث، ائمہ فقہ اور علمائے اصول کی متعینہ اور متفقہ مصطلح تعریف سے اخراج و فرار ہی نہیں بلکہ بدیہی طور پر انتہائی مضر بھی ہے کیونکہ اس طرح ’’سنت‘‘ کا دائرہ صرف ان چند اعمال تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا جو علی سبیل الاستمرار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، مثلاً نماز کے بعض ارکان وغیرہ، لہٰذا تواتر عمل کی یہ شرط بہرصورت نہایت غیر دانشمندانہ اور قطعاً ناقابل قبول ہے۔
|