Maktaba Wahhabi

106 - 360
شیخ عبدالجبار عمر پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس طرح پروردگار قرآن کا حافظ و نگہبان ہے، اسی طرح حدیث کا بھی ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے: [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ][1] یعنی ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم اس کے نگہبان ہیں جبکہ قرآن و حدیث دونوں کی ضرورت ہے تو یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ خدا صرف قرآن کی حفاظت کرے اور حدیث کو بغیر حفاظت کے چھوڑ دے۔ اس نے حفاظت کے لئے امامان محدثین کو پیدا کیا جنہوں نے ایک ایک حدیث کے لئے دور دراز سفر طے کئے اور راویوں کی جانچ پڑتال میں بہت کوششیں فرمائیں، لفظ لفظ کی تحقیق میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ بڑی بڑی کتابیں اس بارے میں تالیف فرمائیں، صحیح کو ضعیف سے اور ناسخ کو منسوخ سے الگ کر دکھایا۔ غرض حدیث پر عمل کرنے کے لئے کوئی عذر و حیلہ باقی نہ چھوڑا، الخ۔‘‘ [2] جناب مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں: ’’جب قرآن فہمی کے لئے تعلیم رسول ضروری ہے اس کے بغیر قرآن پر صحیح عمل ناممکن ہے تو جس طرح قرآن قیامت تک محفوظ ہے اس کا ایک ایک زیروزبر محفوظ ہے، ضروری ہے کہ تعلیمات رسول بھی مجموعی حیثیت سے قیامت تک باقی اور محفوظ رہیں، ورنہ محض الفاظ قرآن کے محفوظ رہنے سے نزول قرآن کا اصلی مقصد پورا نہ ہو گا، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہی ہیں جن کو سنت یا حدیث رسول کہا جاتا ہے، اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ جل شانہ کی طرف سےہے اگرچہ اس درجہ میں نہیں ہے جس درجہ کی حفاظت قرآن کے لئے موعود ہے: [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ﴾۔ ’’ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے، ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ جس کا یہ نتیجہ ہے کہ اس کے الفاظ اور زیروزبر تک بالکل محفوظ چلے آئے ہیں اور قیامت تک اسی طرح محفوظ رہیں گے، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اگرچہ اس طرح محفوظ نہیں لیکن مجموعی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا محفوظ رہنا آیت مذکورہ کی رو سے لازمی ہے، اور بحمداللہ آج تک وہ محفوظ چلی آتی ہیں، جب کسی طرف سے اس میں رخنہ اندازی یا غلط روایات کی آمیزش کی گئی ماہرین سنت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نکھار کر رکھ دیا اور قیامت تک یہ سلسلہ بھی اسی طرح رہے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک ایسی جماعت اہل حق اور اہل علم قائم رہے گی، جو قرآن و حدیث کو صحیح طور پر محفوظ رکھے گی اور ان میں ڈالے گئے ہر رخنہ کی اصلاح کرتی رہے گی۔‘‘ [3] آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’اگر آج کوئی شخص اس ذخیرہ حدیث کو کسی حیلے بہانے سے ناقابل اعتماد کہتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم قرآنی کی خلاف ورزی کی کہ مضامین قرآن کو بیان نہیں کیا یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بیان کیا تھا مگر وہ قائم و محفوظ نہیں رہا، بہر دو صورت قرآن بحیثیت معنی کے محفوظ نہ رہا جس کی
Flag Counter