قرار دے دیا جائے تو ذکر غیر محفوظ ہو جائے گا حالانکہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ]کوئی بھی مسلم ایسا نہیں سوچ سکتا کیونکہ اس سے آیت کی تکذیب اور اللہ کی طرف سے وعدہ خلافی کا اظہار ہوتا ہے (نعوذ بالله)۔ اگر یہاں کوئی یہ کہے کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی مراد صرف قرآن کی حفاظت ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے تمام وحی جو قرآن نہیں ہے اس کی ضمانت اللہ کے ذمہ نہیں ہے۔ تو ہم اس سے یہ کہیں گے کہ یہ دعویٰ دلیل و برہان کے بغیر محض ایک جھوٹا دعویٰ ہے۔ ’’الذکر‘‘ کی یہ تخصیص بلا دلیل ہونے کے باعث باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: [قُلْ هَاتُوا۟ بُرْهَـٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ]یعنی آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس کے پاس اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل نہ ہو وہ اپنے دعویٰ میں صادق نہیں ہے۔ لہٰذا اسم ’’الذکر‘‘ عام ہے اور ہر اس چیز پر واقع ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی نازل فرمائی، وہ قرآن ہو یا قرآن کی شرح سنت۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: [وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ]اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لئے قرآن کی توضیح و بیان کے لئے مامور تھے کیونکہ قرآن میں بہت سی چیزیں مجمل ہیں مثلاً صلاۃ، زکوۃ اور حج وغیرہ۔ ان چیزوں کے متعلق جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں ہمارے لئے لازم قرار دیا ہے، ہم کچھ نہیں جان سکتے الا یہ کہ ان الفاظ کی اس توضیح و تفسیر کی طرف رجوع کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، پس اگر ان مجملات قرآن کی بیان کردہ آں صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر و بیان غیر محفوظ ہو یا اس کی سلامتی کی کوئی ضمانت موجود نہ ہو تو نصوص قرآن سے انتفاع باطل ہوا جس سے ہمارے اوپر فرض کی گئی شریعت کا بیشتر حصہ باطل ہو جاتا ہے۔‘‘ [1] اگرچہ امام ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ کے اس مدلل، مفصل اور واضح کلام کے بعد مزید کسی دلیل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لیکن پھر بھی قارئین کرام کی دلچسپی کے پیش نظر بعض دوسرے مشاہیر کے اقوال بھی پیش خدمت ہیں: حافظ ابن قیم رحمہ اللہ آیت: [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ]کی تفسیر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فعلم أن كلام رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم في الدين كله وحي من عندالله فهو ذكر أنزله الله‘‘ [2] ’’یعنی: پس معلوم ہوا کہ بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دینی معاملات میں ہر ارشاد نرا وحی الٰہی ہے اور جب یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی ہے تو اس ’’ذکر‘‘ کے حکم میں داخل ہے (جس کی حفاظت کا وعدہ و ذمہ اللہ عزوجل نے لے رکھا ہے)۔‘‘ |