Maktaba Wahhabi

265 - 306
فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ)[1] ’’اور تم میں سے جو مرد، عورت بے نکاح ہوں، ان کا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی،اگر وہ مفلس بھی ہوں گےتو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی بنادے گا۔اللہ کشادگی والا اور علم والاہے۔‘‘ یہ آیت کریمہ دلیل ہے کہ نکاح حصولِ رزق کا ذریعہ ہے۔اللہ نے مردوں کو اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنے اہل وعیال پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرو،مگر اس مسئلہ کی بناء پر طلاق کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کردے گا اور تنگ روزی کو کھول دے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللّٰهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا) [2] ’’کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی ہو،اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے۔کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اُسے دے رکھی ہے۔اللہ تنگی کے بعد آسانی وفراغت بھی کردے گا۔‘‘ ہم اس بھائی کو نصیحت کریں گے کہ وہ دونوں بیویوں میں سے کسی کو طلاق نہ دے۔وہ اللہ پر توکل کرے اور صبر سے کام لے،مگر لاپرواہی اور سستی چھوڑ دے۔وہ اللہ پر ایسا توکل کرے جیسا توکل کرنے کا حق ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگرتم اللہ پر ایسا توکل کرو جیسا توکل کرنے کاحق ہے تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسا پرندوں کو دیتا ہے۔وہ پرندے صبح کو رزق کی تلاش میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘[3] حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:
Flag Counter