Maktaba Wahhabi

206 - 306
کہنے لگے کہ ان مواقع پر عورتوں نے نئے کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور خوب تیاری کی ہوتی ہے،لہٰذا ان کا عید گاہ جانا بے حیائی ہے، انھوں نے ان کااعتراض رد کرتے ہوئے کہا کہ عیدین سے پہلے جب عورتیں مسلسل بازار جاتی ہیں اور اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر پوری تیاری سے شریک ہوتی ہیں اور عموماً پردہ وغیرہ کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا تو کیا یہ بے حیائی نہیں ہے؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو پورے شرعی آداب کا اہتمام کر کے پورا کیا جائے تو یہ بے حیائی ہے؟یہ کیسے خود ساختہ معیار ہیں جن کی نہ کوئی دلیل ہے اور نہ ہی ان کا کوئی وجود ہے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو پیار سے(ياعائش)اور (ياعائشه) کہہ کر بلاتے تھے۔ بیوی کا نام پکارنے میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔ گھریلو ضروریات کے لیے میاں بیوی کا مال خرچ کرنا کیسا ہے؟ سوال۔ میں اور میری بیوی نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم دونوں گھریلو ضروریات کو مل کر پورا کریں گے۔ میری بیوی بھی میری طرح سرکاری ملازم ہے۔ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم دونوں اپنی تنخواہ اکٹھی کر لیتے ہیں جس سے پہلے ہم کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہیں، پھر گھریلو ضروریات کی چیزیں بازار سے لے آتے ہیں اور اگر پیسے بچ جائیں تو بچوں کے مستقبل کے لیے کوئی نہ کوئی ضروری چیز خریدلاتے ہیں۔ یادرہے کہ ہم دونوں اس عمل سے مطمئن اور بہت خوش ہیں۔ میری بیوی کو کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے۔کیا میرے لیے میری بیوی کا مال اس طرح استعمال کرنا جائز اور حرام ہے؟ میں امید کرتا ہوں کہ آپ جواب دے کر میری تشفی فرمائیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بیوی کا مال لے کر حرام روزی کمانے کا ارتکاب کرتا ہوں اور مجھے قیامت کے دن حساب و کتاب دینا پڑے۔ جواب۔ آپ نے جو صورتحال ذکر کی ہے، وہ بڑی خوش آئندہ اور قابل رشک ہے۔ اگر آپ کی بیوی باشعور ہے اور اپنی خوشی سے اپنا مال آپ کو دے رہی ہے تو اس کو خرچ کرنے میں کسی قسم کی کوئی قباحت اور حرج نہیں ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر وہ اپنی خوشی سے تمھیں کچھ دے دیں تو اس کو ہنسی خوشی کھالو۔‘‘[1]
Flag Counter