Maktaba Wahhabi

132 - 306
بیوی کو کیسے سمجھاؤں سوال۔ میں دعوت دین کا کام کرتا ہوں اور میرا زیاد ہ وقت اسی کام میں گزرتا ہے۔ میں جب گھر واپس آتا ہوں تو میری بیوی اکثر مجھ سے جھگڑا کرتی ہے کہ میں اس کا اور اپنے بچوں کا کوئی خیال نہیں رکھتا۔ وہ یہ بھی کہتی ہے، بیوی بچوں کا خیال رکھنا، ان پر توجہ دینا بھی ایک بہت بڑا فریضہ ہے جس کی اہمیت فریضہ دعوت دین سے کسی طور کم نہیں، حالانکہ میں اس کو بھی وقت دیتا ہوں، اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہوں اور بچوں کی نگہداشت بھی حتی المقدور کرتا ہوں مگر وہ کبھی بھی راضی نہیں ہوتی۔اس صورتحال میں آپ میرے لیے کیا حکم صادر فرماتے ہیں؟ اللہ آپ کے علم میں برکت نصیب فرمائے، آمین یادرہے کہ میری بیوی میرے عمل سے خوش نہیں یعنی وہ اسے ناپسند کرتی ہے۔ یہ اُمت یعنی اُمت ِمحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم متوسط راہ اختیار کرنے والی ہے جو افراط و تفریط (کمی و زیادتی) سے ہٹ کر ہے۔جو شخص اس امت میں شامل ہونے کا دعویدار ہے اسےچاہیے کہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر کام میں درمیانی راہ اختیار کرے، اس طرح کہ نہ ہی تو وہ کسی مسئلہ میں زیادتی کرے اور نہ ہی کمی کرے۔ جو سوال آپ نے کیا ہے اس کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو مسلمانوں یا یہ کہہ لیں کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں: 1۔کچھ تو وہ ہیں جو اپنا اکثر وقت اپنے اہل وعیال سے دور رہ کر گزارتے ہیں چاہے یہ دوری سفر، دعوت دین، ملازمت یا کسی اور جائز کام کی غرض سے ہو یا کسی مجبوری کی وجہ سے ہو۔ 2۔کچھ وہ ہیں جو اکثر اوقات اپنے اہل و عیال سے چمٹے رہتے ہیں اور بہت کم وقت گھر سے باہر صرف کرتے ہیں حتی کہ اللہ کے دین اور اس کے دین کی دعوت کے لیے بھی وقت نکالنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہم کہنا چاہیں گے کہ جیسے ہر مسلمان پر اس کی بیوی بچوں کے کچھ حقوق ہیں جن کا خیال رکھنا اور ان کو پورا کرنا اس پر فرض ہے، ایسے ہی اس کے اہل وعیال کے علاوہ بھی کچھ لوگوں کے حقوق ہیں جن کو بجا لا اس پر واجب ہے۔ لہٰذا ہر دوذمہ داروں سے صحیح طور پر عہدہ بر آہونے کے لیے اسے راہ توسط اختیار کرناہوگی جو ہر طرح کی کمی اور زیادتی سے پاک ہو۔ لہٰذا کسی
Flag Counter