Maktaba Wahhabi

237 - 306
اور اعوذباللّٰه پڑھ کر شیطانی چال کو ناکام کردے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں لفظ ’’طلاق ‘‘سے بچنے کی کوشش کرے کیونکہ اس میں خطرہ اور نقصان ہے۔ سوال میں مذکورصورتحال میں سائل نے اپنی بیوی کو کہا کہ ’’میرے اوپر طلاق، میں تجھے لے کر دوبارہ یہاں نہ آؤں گا‘‘ اس کا ارادہ طلاق کا نہ تھا، بلکہ وہ اپنے آپ کو دوبارہ بیوی کے ماں باپ کے گھر آنے سے روکنا چاہتا تھا، جیسا کہ خود بھی اس نےوضاحت کردی تو صحیح بات یہی ہے کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ اسے دس مساکین کو کھانا کھلانا ہوگایا ان کو کپڑے پہنانا ہوں گے یا پھر ایک گردن آزاد کرنا ہوگی۔ اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو پھر تین دن کے روزے رکھنا ہوں گے کیونکہ طلاق کے ساتھ قسم کھانے سے اگر اسی چیز کا ارادہ ہو جو قسم سے ہوتا ہے تو وہ صحیح قول کے مطابق قسم ہی شمار ہوگی۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔(واللہ اعلم)(صالح بن فوزان) زبان سے کہے بغیر طلاق کا حکم سوال۔ میں شادی شدہ ہوں اور میرے چاربچے ہیں۔ میرے اور میری بیوی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ایک دن میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ لوگ اپنی بیویوں کو کیسے طلاق دیتے ہیں؟ میں نے اپنے دل میں اپنی بیوی کا نام سوچ کر کہا ’’ تجھے طلاق‘‘نہ ہی تو میں نے یہ الفاظ زبان سے ادا کیے، نہ ہی میری بیوی نے سنے اور نہ ہی کسی اور نے سنا۔ کیاایسی صورت میں طلاق واقع ہوگئی؟ جواب۔ پہلی بات یہ ہے کہ انسان کو ایسے امور سے اور ایسی چیزوں کے متعلق سوچنے سے دور رہنا چاہیے، اپنے ذہن اور دل ودماغ میں ایسے خیالات کو قطعاً جگہ نہیں دینی چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان اس پر وسوسہ ڈال دے اور اپنا تسلط قائم کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو صورتحال آپ نے ذکر کی ہے کہ آپ نے اپنے دل میں ہی سوچا یا دل میں طلاق کی نیت کی مگر زبان سے الفاظ ادا نہیں کیے تو یہ طلاق واقع نہیں ہوئی اور آپ پر کچھ بھی لازم نہیں ہے۔اگر آپ یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے، اگرچہ ہلکی آواز کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوتے یعنی اس طرح کہ خود آپ کو سنائی دیتے اور آپ کی زبان حرکت کرتی تو طلاق
Flag Counter