Maktaba Wahhabi

234 - 306
کیونکہ تم نے اسے پڑھانہ سنا اور نہ ہی اسے ہاتھ لگایا۔ ایسے مشوروں کو ’’ دینِ خواتین ‘‘ ہی قرار دیا جاسکتا ہے، ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔پھرخاوند نے اس کا اقرار بھی کرلیاہے اور اس پردوسال کا عرصہ بھی گزر چکا ہے۔اب مرد،عورت اور بچوں کی پریشانی دور کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ خاوند تجدید نکاح کے ساتھ رجوع کرے۔کتاب وسنت کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی ہوتی ہیں،اس لیے اگر یہ پہلا یادوسرا واقعہ ہے تو خاوند کو رجوع کا حق ہے،لیکن اب عدت گزر چکی ہے،اب انہیں نئے حق مہر کے ساتھ نکاح کرناہوگا۔(واللہ اعلم) (ابومحمد حافظ عبدالستار الحماد) دس بار طلاق دی سوال۔میرے خاوند نے مجھے متعدد مرتبہ طلاق دی، پھر برادری کے دباؤ پر صلح کرتے رہے،میری یادداشت کے مطابق کم از کم دس مرتبہ ایسا ہوچکاہے۔ اب اس نے پھر مجھے طلاق دے دی ہے اور برادری میرے والد صاحب کو صلح پر مجبور کررہی ہے جبکہ مجھے علم ہوا ہے کہ اب ایساکرنا گناہ کی زندگی گزارنے کے مترادف ہے،براہِ کرم آپ اس سلسلہ میں رہنمائی فرمائیں،جزاکم اللہ خیرا۔ جواب۔اس ترقی یافتہ دور میں جہالت کی انتہا ہے کہ ہمیں روزہ مرہ کے دینی مسائل کاعلم بھی نہیں ہے۔قرآن کریم کے مطابق خاوند کو پوری زندگی میں صرف تین طلاقیں دینے کا اختیار ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’طلاق(رجعی) دوبار ہے،پھر یا تو سیدھی طرح سے اسے اپنے پاس رکھا جائے یابھلے طریقے سے اسے رخصت کردیا جائے۔‘‘[1] دور جاہلیت میں مرد کو لاتعداد مرتبہ طلاق دینے کا حق حاصل تھا۔مرد جب بگڑ جاتا تو اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا،پھر دورانِ عدت رجوع کرلیتا،اس طرح لامتناہی سلسلہ جاری رہتا،نہ اسے اچھی طرح اپنے پاس رکھتا اورنہ ہی اسے آزاد کرتا کہ وہ کسی دوسرے آدمی سے نکاح کرسکے۔اس آیت کریمہ میں اس معاشرتی برائی کاسد باب کیا گیاہے اور مرد کو صرف دو
Flag Counter