Maktaba Wahhabi

203 - 306
جدائی بیوی کا لمبی مدت کے لیے سفر پر جانا کیسا ہے؟ سوال۔کیا کسی عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ پانچ یاچھ مہینوں کے لیے سفر پر چلی جائے جبکہ اس کا خاوند موجود ہو؟شرعی رہنمائی واضح فرمائیں،اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ جواب۔ایسی عورت کے لیے دو شرطوں کے ساتھ لمبے سفر پر جانا جائز ہے: 1۔اس کا خاوند راضی ہو اور بخوشی اسے اجازت دیدے اور اپنی بیوی کے ساتھ اس کے کسی محرم رشتہ دار کو بھیجے۔ 2۔عورت کو کوئی شرعی مجبوری ہو اور میاں بیوی کا ایک دوسرے سے دور رہنا کسی حرا م کام میں واقع ہونے کا باعث نہ ہو۔اگر ایسا ہو تو بیوی کا خاوند سے دور رہنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہ نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی نقصان اٹھاؤ۔‘‘ (علماء کمیٹی) لمبی جدائی کا حکم سوال۔فضیلۃ الشیخ! میں سعودی عرب میں مقیم ہوں اور اللہ کے فضل و کرم سے شادی شدہ ہوں۔ مجھے کاروباری سلسلہ میں قاہرہ جانا ہے،وہاں پر میرا قیام لمبا ہو سکتا ہے۔ کیا میں اپنی بیوی سے طویل عرصہ تک دور رہ سکتا ہوں اور کیا اسلام نے بیوی سے دور رہنے کی کوئی مدت مقرر کی ہے؟اور اگر کی ہے تو وہ کتنی ہے تاکہ مجھے شرعی حکم کا علم ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دونوں لمبی جدائی کی پریشانی بھی اٹھائیں اور گناہ کا بوجھ بھی۔ جواب۔شرعی دلائل پر غور کرنے کے بعد میاں اور بیوی کی جدائی کی مدت زیادہ سے زیادہ چار ماہ مقرر کی گئی ہے، اس حد سے زیادہ جدائی جائزنہیں ہے، خصوصاً اس پرفتن دور میں جب کہ شیطان کے فریب اور جال ہر سوپھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص بے بس اور مجبور ہے اور
Flag Counter