Maktaba Wahhabi

74 - 306
اور اسی میں عزت و شرافت ہے۔جو عورتیں گھروں سے راہ فرار اختیار کر کے نکاح خود منعقد کروالیتی ہیں، وہ جہاں شریعت کے مقاصد حسنہ کی دھجیاں بکھیرتی ہیں وہاں اپنے والدین عزیز واقارب اور رشتہ داروں کے لیے بھی ذلت ورسوائی کا باعث بنتی ہیں۔ شریعت نے جو بھی اصول و ضوابط اور زندگی گزارنے کے طور طریقے دئیے ہیں، ان پر عمل کرنے میں ہی خیر و بھلائی ہے۔شریعت سے ہٹ کر زندگی بسر کرنا دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کو جنم دیتا ہے۔اللہ ہمیں راہ سدیدا ور صراط مستقیم پر قائم رکھے اور جادہ حق پر ہی ہماری موت آئے۔(آمین)(ابو الحسن مبشر احمد ربانی) جس نکاح میں شروط پوری نہ ہوں اس کا حکم سوال۔ متحرم شیخ صاحب! ہمارے ہاں ایک اسٹریلیوی لڑکی نے اپنی شادی بغیر ولی کے کرلی، نہ حق مہر مقرر کیا گیا اور نہ ہی گواہان موجود تھے۔ نکاح کے موقع پر ایک مسلمان مرد، ایک عیسائی عورت جو کہ لڑکی کی ماں ہے، لڑکی کی عیسائی سہیلیاں اور چند مسلمان سہیلیاں موجود تھیں۔نکاح کی رجسٹریشن بھی ایک عیسائی عورت نے کی۔ چار سال گزر جانے کے بعد اس لڑکی نے اسلام قبول کر لیا، اللہ نے اسے دو بیٹے بھی عطا فرمائے۔ اب وہ لڑکی اس نکاح کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرنا چاہتی ہے۔اگر یہ نکاح صحیح نہیں ہے تو اس صورتحال میں اسے کیا کرنا ہوگا؟دوسری بات یہ ہے کہ یہ لڑکی انگریزی کے علاوہ کچھ نہیں جانتی تو مسلمان ہونے کے بعد وہ نماز کس طرح پڑھے گی؟ جواب۔ سوال میں مذکورہ نکاح کی صورت غیر شرعی ہے، یہ نکاح صحیح نہیں ہے کیونکہ اس نکاح میں نہ ہی تو ولی موجود تھا اور نہ ہی شرعی گواہان۔ نکاح میں حق مہر کا تذکرہ نہ کرنا بھی غیر صحیح فعل ہے۔ نکاح میں ولی اور دوگواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ولی اور عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘[1] اس نکاح کو صحیح اور شرعی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس لڑکی کا ولی نکاح رجسٹرار کی خدمت میں حاضر ہو اور مذکورہ خاوندہ سے اس لڑکی کا نکاح عادل گواہوں کی موجود گی میں کروائے بشرطیکہ لڑکی اس نکاح پر رضا مند ہو اور اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو۔ اگر اس کا ولی موجود نہ ہو تو عدالت میں شرعی حاکم(جج) کی موجودگی میں
Flag Counter