Maktaba Wahhabi

307 - 306
حصہ دے۔‘‘ اس کے بعد امام بخاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان بطور دلیل پیش کیا ہے: ’’عطیہ دیتے وقت اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف سے کا لیا کرو۔‘‘[1] اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب ذیل فرمان ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ ’’عطیہ دیتے وقت اپنی اولاد کے درمیان برابری کیاکرو۔اگر(کسی کمزوری کے پیش نظر) میں کسی کو زیادہ دینا چاہتا تو عورتیں اس بات کی زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ دیا جائے۔‘‘[2] ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرتے وقت مساوات کو سامنے رکھنا ہو گا۔ ہاں، اگر اولاد میں کوئی معذور، پاہج یا مفلوک الحال ہے تو باپ کو حق ہے اسے دوسروں سے زیادہ دے، تاہم اس کے لیے معقول وجہ کا ہونا ضروری ہے۔(واللہ اعلم)(ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد) عاق نامہ کی شرعی حیثیت سوال۔اخبارات میں جو عاق نامہ دیا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کیا والد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نافرمان بیٹے کو وراثت سے محروم کر سکے؟ جواب۔ انسان کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کو تقسیم کرنے کا طریقہ کار خود اللہ کا وضع کردہ ہے، اس میں کسی کو ترمیم و اضافہ کا حق نہیں ہے۔ جو حضرات قانون واراثت کو پامال کرتے ہوئے آئے دن اخبارات میں اپنی اولاد میں سے کسی کے متعلق ’’عاق نامہ’‘ کےاشتہارات دیتے ہیں، اللہ نے انہیں بڑے خوفناک عذاب کی دھمکی دی ہے۔ہمارے معاشرے میں کہیں تو عورتوں کو وراثت سے مستقل طور پر محروم کردیا جاتا ہے اور کہیں دوسرے بچوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف لڑکے کو ہی ووراثت کا حق دار ٹھہرایا جاتا ہے، یہ سب اللہ کے وضع کردہ ضابطہ میراث کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور رشتہ داروں نے چھوڑا
Flag Counter