Maktaba Wahhabi

253 - 306
بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو۔‘‘ جو کچھ آپ کے والدین نے آپ سے کروایا ہے، اس کا کوئی کفارہ تو ان پر نہیں ہے البتہ ان کو اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے اور معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر آپ کے دوبارہ اکٹھے ہونے کی صورت ہو تو ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ یہ اجڑاہوا گھر پھر سے آباد ہوجائے۔اس کوشش پر ان شاء اللہ تعالیٰ دونوں کوثواب ہوگا۔ اللہ فرماتے ہیں: (لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا) [1] ’’ان کے اکثر مصلحتی مشورےبے خبر ہیں، ہاں بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کروانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے، اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے۔‘‘ (واللہ اعلم)(عبداللہ بن جبرین) بیک وقت تین طلاقیں سوال۔ ایک آدمی نے ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دے ڈالیں۔ کیا یہ تینوں واقع ہو گئیں یا ایک واقع ہوئی؟ جواب۔ علمائے کرام کے صحیح قول کے مطابق ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔اس کی دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، عہد ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سال تک بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ لوگوں کو جس معاملہ میں سہولت تھی انھوں نے اس میں جلدی کی۔ اگر ہم ان تینوں کو لاگو کر دیں اور پھر انھوں نے تینوں کو لاگو کر دیا۔‘‘[2]
Flag Counter