Maktaba Wahhabi

57 - 306
وٹہ سٹہ کی شادی کا حکم سوال۔شرعی طور پر وٹہ سٹی کی شادی کے متعلق کیا حکم ہے؟ جواب۔وٹہ سٹہ کی دوصورتیں ہیں کہ کسی شخص نے اپنے بھائی کو ا پنی بیٹی کا رشتہ دے دیا،اس کے بعد اُس نے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھائی کے بیٹے دے کردیا نکاح کے وقت کوئی شرط وغیرہ نہیں رکھی گئی اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔دوسری قسم وٹہ سٹہ ارادی ہے یعنی نکاح کرتے وقت یہ شرط کرلی جائے کہ تم اپنی بیٹی کا رشتہ میرے بیٹے سے کرو گے۔اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’شغار‘‘ کہتے ہیں۔شرعی طور پر ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔حدیث میں بیان ہے کہ: ’’شغار کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے۔[2] حدیث میں شغار کی تعریف بایں الفاظ کی گئی ہے: ’’کوئی آدمی اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ دوسرا بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرے گا او ردرمیان میں کوئی حق مہر نہ ہو۔‘‘[3] بعض علماء كا خیا ل ہے کہ اگردرمیان میں مہر رکھ دیا جائے تو نکاح شغار کے دائرہ سے نکل جاتا ہے،حالانکہ اس تعریف میں حق مہر کا ذکر اتفاقی ہے احترازی نہیں ہے جیسا کہ ایک اور حدیث میں ہے: حضرت عباس بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت عبدالرحمان بن حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردیا اور حضرت عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عباس بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقد میں دے دی،انہوں نے درمیان میں مہر بھی رکھا۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس نکاح کا علم ہواتو انہوں نے اپنے گورنر مروان کو مدینے میں خط بھیجا کہ ان کے درمیان فوراً تفریق کروادی جائے
Flag Counter