Maktaba Wahhabi

315 - 306
(وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ) [1] ’’اور جو(ترکہ) تم چھوڑ جاؤ،اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو،اور اگر تمہاری اولاد ہوتو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا،اُسے وصیت کے بعد جو تم کرگئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔‘‘ یہ حکم عام ہے،اس میں خاوند کے ساتھ شب ِ عروسی گزارنے یا نہ گزارنے کا کوئی فرق ذکر نہیں ہے۔اس پر سوگ بھی لازم ہے اور یہ عدت ِ وفات ہوگی اگرچہ میاں بیوی کو تنہائی میسر نہ آسکی ہو۔عدتِ وفات چار ماہ دس دن ہے۔(واللہ تعالیٰ اعلم) (ابن عثیمین) کیا منہ بولا بیٹا حقیقی ہوگا؟ سوال۔شیخ صاحب! براہِ کرم یہ بتائیے کہ اگر کوئی شخص بے اولاد ہے اور نہ کسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیتاہے تو کیا یہ اُس کا حقیقی بیٹا تصور ہوگا؟ شریعت ِ اسلامیہ اس مسئلہ میں کیا رہنمائی فرماتی ہے؟ جواب۔زمانہ جاہلیت میں لوگ جب کسی کو منہ بولا بیٹا بنالیتے تھے تو اس کو وہ پورے حقوق حاصل ہوجاتے تھے جو حقیقی بیٹے کو ہوتے تھے۔وہ میراث میں وارث ہوتا،جس نے اس کو منہ بولابیٹا بنایا ہوتا وہ اس کی بیوی کے پاس رہ سکتا تھا کیونکہ وہ اس عورت کا بیٹا تصور کیاجاتا،منہ بولے بیٹا کی بیوی کےساتھ شادی حرام تصور ہوتی تھی۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ بولا بیٹا بنایا۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے مگر لوگ زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے۔اللہ نے اس رسم کو ختم کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے متعلق ارشاد فرمایا: (وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللّٰهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ) [2] ’’ اور نہ تمہارے لے پالک(منہ بولے) لڑکوں کو(واقعتاً) تمہارے بیٹے بنایا ہے۔یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں،اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہ سیدھی
Flag Counter