Maktaba Wahhabi

250 - 306
اگر تو فلاں جگہ جائے تو تجھے طلاق سوال۔ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ اگر تو فلاں جگہ جائے یا فلاں گھر میں داخل ہو تو تجھے طلاق، اور اس کی بیوی اس جگہ چلی جاتی ہے یا پھر اس گھر میں داخل ہو جاتی ہے تو کیا اسے طلاق واقع ہو جائے گی؟ جواب۔اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ اگر تو فلاں جگہ گئی یا فلاں گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق، اور اس کی بیوی اس جگہ چلی گئی یااس گھر میں داخل ہو گئی تو اس کی بیوی کو ایک طلاق واقع ہو جائے گی،جس کے بعد رجوع کا اختیار ہو گا بشرطیکہ عدت ختم نہ ہوئی ہو ورنہ ولی اور گواہوں کی موجودگی میں نکاح کی تجدید کرنا ہوگی۔[1](واللہ اعلم) میں فلاں جگہ جاؤں تو میری بیوی کو طلاق سوال۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ اگر میں فلاں جگہ جاؤں تو میری بیوی کو طلاق اور پھر وہ اس جگہ چلاجاتا ہے، کیا اس طرح اس کی بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی؟ جواب۔اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ فلاں جگہ جاؤں تو میری بیوی کو طلاق اور پھر وہ اس جگہ چلا جائے اور وہ اس جگہ بھول کر نہ گیا ہو یعنی جان بوجھ کر جائے تو اس کی بیوی کو ایک طلاق واقع ہو جائے گی اور اس کے بعد عدت کے اندر وہ رجوع کر سکے گا۔ اور اگر وہ اس جگہ پر داخل نہیں ہوتا تو اس کی بیوی کو طلاق نہ ہوگی۔[2](واللہ اعلم) میں بیوی کا ذمہ دار نہیں سوال۔ ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ ’’ میں اپنی بیوی کا ذمہ دار نہیں ہوں‘‘کیا یہ الفاظ طلاق شمار ہوں گے؟ جواب۔ان الفاظ میں متکلم کی نیت کا اعتبار ہوگا، کیونکہ یہ الفاظ طلاق کے واضح لفظ نہیں ہیں بلکہ غیر واضح ہیں۔ تو شریعت کے قاعدے کے مطابق اس کی نیت کا اعتبارضروری ہے۔(واللہ اعلم)(محمد بن صالح العثیمین)
Flag Counter