Maktaba Wahhabi

232 - 306
سوال کے مطابق لفظ طلاق ابھی ادا نہیں ہوا، نہ ہی تو اس کی طرف سے اور نہ ہی اس کے وکیل کی طرف سے، لہذا اس کی بیوی کو طلاق واقع نہ ہوئی ہے۔جب تک لکھ کر یا بول کر لفظ ’’طلاق’‘ ادا نہ ہو، تب طلاق واقع نہ ہوگی۔ ہر وہ انسان جس نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا مگر الفاظ ادا نہ کیے تو طلاق نہ ہوگی۔(واللہ اعلم)(صالح عثیمین) لفظ ’’طلاق ‘‘لکھ کر بیوی کی طرف پھینک دیا سوال۔ایک خاتون اپنے گھر کے کام میں مصروف تھی کہ اس کے شوہر نے اس کی طرف ایک پرچی پھینکی اور باہر چلا گیا،عورت نے خیال کیا کہ کوئی حساب کی پرچی ہے۔ اسے دوسرے دن پتہ چلا کہ اس پر تین مرتبہ طلاق کا لفظ تحریر تھا۔ محلے کی کسی عورت نے بتایا کہ اس طرح طلاق واقع نہیں ہوتی ہے کیونکہ تم نے لفظ طلاق پڑھا، نہ ہی سنا اور نہ اسے ہاتھ لگایا۔ ایک مولوی صاحب تشریف لائے تو شوہر نے ان کے روبرو اقرار کیا کہ اس نے طلاق دے دی تھی، جس پر وہ خاتون اپنا گھر چھوڑ کر اپنے میکے چلی گئی۔اس کو تقریباً دو سال گزر چکے ہیں۔ عورت، مرد اور بچے سب پریشان ہیں۔مرد مسلسل اس کوشش میں ہے کہ خاتون واپس آجائے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں اس الجھن کو حل کریں، مہربانی ہوگی۔ جواب۔ طلاق کا لغوی معنی ’’بندھن کھول دینا‘‘ ہے اور شرعی طورپر نکاح کی گرہ کھول دینے کو طلاق کہا جاتا ہے۔ ہر مکلف و خود مختار شخص جب اپنی بیوی کو اس کے برے اخلاق یا کسی اور وجہ سے ناپسند کرتا ہو تو اسے طلاق دے سکتا ہے۔طلاق کے لیے صرف یہی شرط ہے کہ خاوند عاقل و بالغ ہو اور اپنے عزم وارادہ سے صراحت کے ساتھ اس الفاظ کو استعمال کرے۔اس کے نافذ ہونے کے لیے بیوی کے علم میں لانا ضروری نہیں ہے۔اگر دو گواہوں کی موجود گی میں اس کا اقرار کرے تو طلاق ہو جاتی ہے یا تحریر کر کے اپنے دستخط کردے تب بھی طلاق ہو جائے گی، بیوی تک اس کا پہنچانا یا اس کا وصول کرنا یا نہ کرنا اس کے نفاذ کے لیے شرط نہیں ہے، چنانچہ ابن قدامہ لکھتے ہیں: ’’اگر کسی نے اپنی بیوی کو طلاق لکھ دی کہ میری طرف سے تجھے طلاق ہے تو فورا طلاق واقع ہو جائے گی، بیوی کو یہ تحریر پہنچے یا نہ پہنچے۔‘‘[1]
Flag Counter