Maktaba Wahhabi

52 - 306
نکاح کا طریقہ نکاح کے وقت کلمے پڑھانا سوال۔ نکاح کے وقت کلمے پڑھائے جاتے ہیں اور اسے شرائط نکاح کا نام دیا جاتا ہے۔قرآن وحدیث کی روسے اس کی کیا حیثیت ہے؟اور اگر کسی کا نکاح ان کے بغیر پڑھا دیا گیا تو کیا نکاح درست ہے؟ نکاح کے وقت نکاح خواں لڑکی کے پاس جا کر ایجاب و قبول کرواتا ہے، کیا عورت کا ولی ایجاب و قبول نہیں کروا سکتا؟ نیز بتائیں کہ نکاح میں گواہوں کی تعداد کیا ہے؟کتاب و سنت کی روشنی میں ان سوالات کا جواب دیں۔ جواب۔نکاح کے وقت ایمان مجمل، ایمان مفصل، کلمہ، طیبہ، کلمہ شہادت، کلمہ تمجید، کلمہ توحید، کلمہ استغفار اور کلمہ ردکفر وغیرہ کی تلقین کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے۔بلکہ اس طرح کے کلمات کا وجود ہی محل نظر ہے، چہ جائیکہ انہیں نکاح کے موقع پر پڑھا جائے۔ نکاح صرف ایجاب و قبول کا نام ہے۔ عورت کی رضامندی، ولی کی اجازت، حق مہر اور دو گواہوں کی موجود گی نکاح کی شرائط ہیں،جن کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ اس بناء پراگر کسی کا نکاح ان کلمات کے پڑھائے بغیرکردیا جاتا ہے تو اس کےصحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ ہمارے نزدیک نکاح کے وقت دولہا اور دلہن کو ان چھ کلمات کی تلقین بدعت سیئہ ہے، ان کے پڑھنے پڑھانے سے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہمارے ہاں نکاح کے وقت بہت سی غلط رسومات ادا کی جاتی ہیں، ان میں بدترین رسم یہ ہے کہ نکاح خواں جو محرم نہیں ہوتا لڑکی کے پاس جاتا ہے اور ایجاب کا فریضہ سر انجام دیتا ہے، حالانکہ یہ کام اس لڑکی کے محرم رشتہ داروں کے کرنے کا ہے۔ نکاح کی پیشکش کرنے کے لیے ابتدائی کلام کو ایجاب کہا جاتا ہے جو عام طور پر عورت کی طرف سے ہوتا ہے یا عورت کی طرف سے اس کا سر پرست ادا کرتا ہے یا نکاح خواں ان کا نمائندہ بن کر ایجاب کے کلمات کہتا ہے۔ اس پیشکش کو منظور کرنے کے لیے جو کلام کی جاتی ہے اسے قبول کہا جاتا ہے اور قبول کا
Flag Counter