Maktaba Wahhabi

79 - 306
بڑے کو یہ حق دیاجائے تو یہ انتہائی بہترین فیصلہ ہوگا۔یہ دونوں چچا درجہ میں ولی ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں لہذا یہ نکاح صحیح ہے۔(محمد بن ابراہیم آل شیخ) نوجوان بھائی کی موجودگی میں لڑکی کا نکاح کوئی اور کروادے تو کیسا ہے؟ سوال۔ایک لڑکی جس کا باپ فوت ہوچکا ہے،اس کا سگا بھائی 15 سال کی عمر کو پہنچ چکا ہے مگر اس لڑکی کا نکاح اس کے بھائی سے پوچھے بغیر لڑکے کے کزن نے کہیں کروادیا۔ہمیں کسی نے بتایا کہ یہ نکاح صحیح نہیں ہے کیونکہ نکاح کروانے والے کو نہ تو لڑکی کے باپ نے اور نہ ہی اس کے بھائی نے وکیل مقرر کیا اور نہ ہی اسے کسی قسم کا کوئی اختیاردیا ایسے نکاح کا کیا حکم ہے؟ جواب۔اگر اس لڑکی کا بھائی واقعتاً 15سال کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور وہ مکمل طور پر عقلمند ہے نکاح کی مصلحتوں کفو(برابری) وغیرہ کے متعلق جانتا ہے تو یہ نکاح فاسد ہے اور صحیح نہیں ہے بشرط یہ کہ اس کا اس نکاح کے وقت حاضر ہوناممکن ہے لہذا یہ نکاح صحیح نہیں کیونکہ اس نکاح میں ولی کی شرط مفقودہے۔اگر میاں بیوی ایک دوسرے سے تنہائی میں مل چکے ہیں تو انہیں فوراً علیحدہ کردیاجائے یعنی ان میں تفریق پیدا کردی جائے اور اگرایسا نہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ نکاح کی تجدید سے پہلے ہرگز ہرگز ایک دوسرے کے قریب نہ جائیں۔ تجدید نکاح کے لیے لڑکی کے بھائی کو ولی بنانا ہوگا۔اگر یہ لڑکا اپنے مذکورہ کزن کو اپنا وکیل مقرر کردےتو پھراس کی موجودگی میں نکاح کی تجدید ہوگی۔اگرایسا نہیں تو ان دونوں کا اکٹھے رہنا حرام ہے۔اس حرام فعل سے بچنے کے لیے پوری شروط اور ارکان کے ساتھ نکاح کی تجدید کرناہوگی۔(محمدبن ابراہیم آل شیخ) کیا لڑکی کے والد کے قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں ماموں ولی بن سکتا ہے؟ سوال۔ایک لڑکی جو جوانی کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ لیکن اس کا باپ فوت ہوچکا ہے وہ بیچاری یتیم ہے اس کا ایک بھائی بھی ہے جو 12 سال سے بھی کم عمر کا ہے۔اس لڑکی کے ماموں نے اس بچی کا ایک جگہ نکاح کروادیا۔اس لڑکی کے دیگر رشتہ دار موجود ہیں جو اس کے ولی بن سکتے ہیں جبکہ وہ درجہ کے لحاظ سے ایک ہی مقام رکھتے ہیں کیا ایسی صورت میں نکاح صحیح ہوگا؟ جواب۔اس صورتحال میں نہ ہی ماموں ولی بن سکتا ہے اور نہ ہی اس بچی کابھائی بلکہ اس
Flag Counter