Maktaba Wahhabi

225 - 306
طلاق کا بیان جاؤ تم فارغ ہو،کیا طلاق ہوگئی؟ سوال۔میری بیٹی کا اپنے خاوند سے کسی بات پر جھگڑا ہوا،میں نے اپنی بیٹی اور داماد کوسمجھایا اور صلح کروانے کی کوشش کی مگر میرا داماد صلح پر آمادہ نہیں ہوا، بلکہ اس نے کہا کہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو۔یہ یکم جنوری 2001 ء کاواقعہ ہے۔اس کے بعد میرے داماد نے دوسری شادی بھی کرلی ہے۔اس کے باوجود میں نے صلح کے لیے رابطہ کیا،لیکن وہ صلح کے لیے تیار نہیں ہے۔کیا اس طرح میری بیٹی کو طلاق ہوگئی یا نہیں؟کیا وہ آگے نکاح کرسکتی ہے؟ جواب۔میاں بیوی کااگر کسی بات پر جھگڑا ہوجائے تو اسے گھر میں رہتے ہوئے نمٹانے کی کوشش کرنی چاہیے،لیکن اگر داماد نے سائل کو یہ کہہ دیا ہے کہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو۔صرف اتنا کہنے سے طلاق نہیں ہوگی،کیونکہ یہ الفاظ اس نے اپنی بیوی کو مخاطب کرکے نہیں کہے۔اگر بیوی ہی کو کہے تب بھی یہ الفاظ طلاق کے لیے صریح نہیں ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں اسے ’’کنایہ‘‘ کہاجاتا ہے۔ایسے الفاظ کی صورت میں خاوند کی نیت کو دیکھاجائے گا،اگر اس کی نیت واقعتاً طلاق کی تھی تو اسے طلاق شمارکیاجائےگا،بصورت دیگر یہ الفاظ دھمکی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔داماد کا دوسری شادی کرلینا بھی طلاق کے لیے دلیل نہیں بن سکتا۔کیونکہ یہ اس کا حق ہے جو اس نے استعمال کیاہے۔بہتر یہ ہے کہ پنچائتی طور پر خاوند سے دریافت کیاجائے کہ اس کی ان الفاظ سے کیا مراد تھی؟اگر اس نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے تھے تو اب بیوی کی عدت بھی ختم ہوچکی ہے،لہذا اسے شرعاً نکاح کرنے کی اجازت ہے اور اگر اس نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے استعمال نہیں کیے بلکہ دھمکی اور اصلاح ِ احوال کے لیے یعنی بطور ڈراوے کے کہے ہیں تو اس صورت میں طلاق نہیں ہوگی۔سائل کی بیٹی ایسے حالات میں بدستور(اس کے) داماد کی بیوی ہے۔برادری کے سرکردہ احباب یامقامی معززین کے ذریعے
Flag Counter