Maktaba Wahhabi

127 - 306
ابن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’تم لوگ ان(بیویوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور ان (بیویوں)کو چاہیے کہ وہ تمھارے بارے میں اللہ سے ڈریں۔‘‘[1] (علماء کمیٹی سعودی عرب ) (بعض اختصار کے ساتھ) گم ہونے کے بعد پہلا خاوند بھی آگیا،اب بیوی کیا کرے؟ سوال۔ ایک آدمی طویل مدت تک گم رہا حتی کہ اس کی بیوی نے کسی دوسرے آدمی سے شادی کر لی اور اس دوسرے خاوند سے ایک بچہ بھی پیدا ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد پہلا خاوند واپس آگیا تو کیا عورت دوسرے خاوند کے ساتھ رہے یا پہلے کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے اپنے پاس لے آئے؟اور کیا اس کے لیے پہلے خاوند کو دوبارہ نکاح کرنا ہو گا ؟ اور بچہ کس کا ہوگا؟ اس مسئلہ کو شریعت میں (تزويج امراة المفقود عنها زوجها) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی ’’گمشدہ خاوند والی عورت کی شادی‘‘ اگر کسی عورت کا خاوند گم ہو جائے اور وہ مدت بھی ختم ہو جائے جس میں اسے تلاش کیا جاتا رہا اور حالات کے پیش نظر اس کی موت کو تصور کر لیا گیا ہو اور عورت نے عدت بھی گزارلی ہو، اور اس نے کسی اور سے شادی کر لی ہو اور پھر کچھ عرصہ کے بعد پہلا خاوند واپس آجائے تو پہلے خاوند کو اختیار ہے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس لے آئے یا پھر دوسرے خاوند کے پاس رہنے دے۔ یاد رہے کہ دوسرے خاوند پر لازم ہے کہ اگر پہلا خاوند اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو وہ (دوسرا خاوند )اس کو طلاق دے اسے ’’تصرف فضولی‘‘کہتے ہیں۔ الغرض اگر وہ عورت کو دوسرے خاوند کے پاس ہی رہنے دے تو معاملہ واضح ہے اور ان کا نکاح صحیح ہے اور اگر وہ عورت کو اپنے پاس لانا چاہتا ہے تو وہ اسے اپنے پاس لا سکتا ہے مگر اس وقت تک اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک وہ دوسرے خاوند سے جدائی کے بعد عدت نہ گزارلے۔ پہلے خاوند کو دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پہلے نکاح کو توڑنے والی کوئی چیز نہیں اور وہ نکاح باقی ہے۔رہی بچے کی بات تو یہ دوسرے خاوند
Flag Counter