Maktaba Wahhabi

313 - 306
وہ اس حدیث کی آڑ میں پورے قطعہ زمین سے اپنا حق لینے کا دعویٰ کرے۔وہ صرف اتنے حصے میں شریک ہوگا جو باپ کا حصہ رسدی ہے،مثلاً اگر زمین خریدتے وقت باپ کا چوتھا حصہ تھا تو اس کا وہ بیٹا جو زمین خریدنے میں شریک نہیں ہوا،صرف باپ کے چوتھے حصے میں دوسرے ورثاء کے ساتھ شریک ہوگا۔اب باپ کی وفات کے بعد پسماندگان میں اس کی بیوہ،دوبیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔اس لیے متوفی کی کل جائیداد میں سے بیوہ کو 8/1 اور باقی 8/7 بیٹے اور بیٹیاں اس طرح تقسیم کریں کہ ایک بیٹے کو بیٹی سے دوگنا ملے۔سہولت کے پیش نظر متوفی کی کل جائیداد کے 80 حصے کرلیے جائیں۔ان میں آٹھواں حصہ یعنی 10 حصے بیوہ کو دئیے جائیں اور باقی 70 حصوں کو چودہ حصے فی لڑکا اور سات حصے فی لڑکی کے حساب سے تقسیم کردئیے جائیں۔ متوفی :80= بیوہ 10، لڑکا 14، لڑکا 14،لڑکا 14،لڑکا 14،لڑکی 7،لڑکی 7۔(واللہ اعلم) (ابومحمد حافظ عبدالستار الحماد) ایک سے زائد بیویوں کاحصہ کتنا ہوگا؟ سوال۔ایک آدمی فوت ہوا،اس کی تین بیویاں تھیں۔متوفی کی اولاد بھی ہے۔کیا ہر ایک بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا یا وہ تمام آٹھویں حصہ کو برابر تقسیم کریں گی نیز ایک بیوی نے آگے نکاح کرلیا ہے کیا اُسے بھی حصہ دیا جائے گا؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب۔خاوند کےترکہ کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تمہاری اولاد ہے تو ان بیویوں کاآٹھواں حصہ ہے۔‘‘[1] یعنی تمام بیویاں آٹھویں حصے کو آپس میں تقسیم کریں گی،ہر ایک کو آٹھواں آٹھواں حصہ نہیں دیا جائے گا۔اسی طرح اگر کسی بیوی نے عدت گزارنے کے بعد آگے نکاح کرلیا ہے تو اسے فوت شدہ خاوند کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا۔نکاح کرنا اس کا حق ہے جو اس نے حاصل کرلیا ہے،اسے فوت شدہ خاوند کی جائیداد سے بھی حصہ ملنا چاہیے۔ (واللہ اعلم) (ابومحمد حافظ عبدالستار الحماد)
Flag Counter