Maktaba Wahhabi

295 - 306
’’جمہور کا مذہب یہ ہے کہ آدمی اپنی عورت سے خلع کے لیے حق مہر سے زیادہ مال کا مطالبہ کرسکتا ہے۔امام مالک کہتے ہیں کہ مجھے اس کا ایک آدمی بھی مخالف معلوم نہیں ہوتا، لیکن یہ شریفانہ اخلاق کے برخلاف ہے۔‘‘ اور خلع کا اختیار شوہر کو ہے اور بیوی کی رضامندی بھی شرط ہے، اس واسطے کہ خلع کےمعنی یہ ہیں کہ عورت کچھ مال شوہر کو دے کر اس کی زوجیت سے اپنے آپ کو رہا کروالے۔ پس جب تک شوہر خلع نہ کرے گا، خلع جائز نہ ہو گا۔ اسی طرح عورت مال دینے پر راضی نہ ہو تو بھی خلع نہیں ہو سکتا۔اور خلع کے وقت میاں بیوی کا ایک جگہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)(سید محمد نذیر حسین دہلوی) مال کے بدلے خلع لینا سوال۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی دختر نابالغہ کا نکاح ایک شخص کے نابالغ لڑکے سے کردیا۔جب وہ دونوں بالغ ہو گئے تو لڑکے کی عادات بد چلنی، بد اطواری، چوری اور نشہ پینے کی ایسی ہو گئیں کہ اپنی زوجہ کی خبر گیری اور اس کے حقوق کے ادا کرنے سے بالکل کنارہ کش ہو گیا اور زیور متعینہ مہر کا اس کی طرف سے دختر کو ملا تھا وہ اور جو باپ کے گھر کا تھا، سب فروخت کر کے نشہ پینے میں اڑادیا۔نان و نفقہ بالکل نہیں دیتا اور نہ کبھی اپنی زوجہ کو اپنے گھر لے جاتا ہے۔نماز،روزہ ارکان اسلام سے بالکل ناواقف ہندوؤں کی صحبت میں رہتا ہے اور اکثر اوقات انہی کے ہاں کھاتا پیتا ہے۔ میری دختر بھی اس سے ناراض ہے۔اس کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی اور وہ اس کو طلاق بھی نہیں دیتا ہے۔جب طلاق کا مطالبہ کیا جاتا ہے تواور روپیہ طلب کرتا ہے کیونکہ نشہ پینے کے لیے کسی اور جگہ سے روپیہ مل نہیں سکتا۔صرف نشہ کے لیے روپیہ لیتا ہے حالانکہ زر مہر جو اس نے دیا تھا۔وہ سب اپنے تصرف میں لا چکا ہے۔ اس لیے اب اس صورت میں شرعاً اس کا نکاح فسخ ہو کر دوسرے شخص سے نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔ جواب۔ صورت مسئولہ میں شوہر جو روپیہ طلاق دینے پر طلب کرتا ہے، اگر زوجہ اس کے ادا کرنے پر قادر ہے،تو بہتر ہے کہ خلع کروادیا جائے، اور یہ حنفیہ اور غیر حنفیہ سب کے نزدیک
Flag Counter