اس واقعہ اور اہل علم کی بات سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ وراثت کی تاثیر انسان کی تخلیق اورپیدائش میں ضرور ہوتی ہے لیکن جب ہم شادی کے لیے شریک حیات کے انتخاب کا معیار دیکھتے ہیں تو ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ اس میں تاثیر کی بنیاد پر قریبی رشتہ دار کے ساتھ شادی نہ کی جائے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
’’عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے،اس کے مال،اس کے خاندان،اس کی خوبصورتی اور اس کے دین کی وجہ سے۔دین والی کو چن لے تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘[1]
اس حديث سے پتہ چلتاہے کہ شریک حیات کا انتخاب دین کی بنیاد پر ہونا چاہیے، جو عورت دیندار ہو اور خوبصورت بھی ہوتو یہ شادی کے لیے سب سے بہترین اور مناسب ہے۔جس قدر عورت دیندار اور جمال والی ہوگی اس قدر ہی نکاح کے لیے موزوں ہوگی،خواہ وہ قریبی رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار ہو۔اسی طرح دینداری اور اخلاق مردوں کے انتخاب میں بھی شرط ہے چاہے وہ دور کے ہوں یا قریب کے ہوں۔دیندار عورت خاوند کے مال اور عزت کی حفاظت، اپنے بچوں کی تربیت کرے گی اور گھر کو دیہانت داری سے چلائے گی اور خوبصورت عورت کا خاوند اپنی بیوی ہی سے دل لگی رکھے گا،کسی دوسری کی طرف دیکھنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
شریک حیات کا انتخاب کیسے کروں؟
سوال۔محترم شیخ صاحب! میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہوں،آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام نے شریک حیات کا انتخاب کرنے میں بھی کوئی رہنمائی فرمائی ہے؟اگر جواب ہاں میں ہوتو برہ ِ کرم وضاحت فرمادیں۔
جواب۔جی ہاں اسلام نے ہر چھوٹے بڑے کام میں بہترین رہنمائی بہم پہنچائی ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنا اہم کام ذکر نہ کیا جاتا؟جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شریک حیات کے انتخاب کے لیے فرمایا:
|