Maktaba Wahhabi

312 - 306
فرمایا: ’’ اگر ہمیں اس کی حرکت کا پہلے علم ہوتا تو ہم اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے۔‘‘[1] بلکہ ایک روایت میں ہے کہ: ’’ہم اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرتے۔‘‘[2] ان احادیث کے پیش نظر ہمیں وصیت کے معاملہ میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔صورت مسئولہ میں وصیت کے متعلق جو کوتاہی کی گئی ہے، لواحقین کو چاہیے کہ پنچائتی سطح پر اس کی اصلاح کی جائے تاکہ مرحوم کو اخروی باز پرس سے نجات ملے۔ناجائز وصیت کی اصلاح کرنا ضروری ہے اور یہ قرآن کریم کا ایک اہل ضابطہ ہے جس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔(واللہ اعلم) (ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد) کیا بھائی وارث ہو گا؟ سوال۔ہم تین بھائیوں نے اپنے والد محترم کے ساتھ مل کر ایک قطعہ زمین خریداتھا۔ہمارا چوتھا بھائی عرصہ دراز سے بالکل الگ تھلگ رہتا ہےاور اس نے مذکورہ زمین کی خریداری میں کوئی پائی پیسہ بھی نہیں دیا تھا، وہ بھی اس قطعہ زمین سے حصہ لینے کا دعویدار ہے۔والد کی وفات کے بعد شرعی طور پر اس زمین میں اس کا کتنا حصہ بنتا ہے؟ نیز ہماری دو بہنوں اور والدہ کا حصہ بھی بتادیں۔ جواب۔ باپ کے پاس رہنے والی اولاد کی کمائی باپ کی ہی شمار ہوتی ہے، الاً یہ کہ اولاد کا الگ حق ملکیت تسلیم کر لیا جائے۔ صورت مسئولہ میں قطعہ زمین خریدتے وقت تینوں بیٹے باپ کے ساتھ شراکت کے طور پرحصہ وار بنے ہیں، یعنی ان کا الگ حق ملکیت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال کے پیش نظر اگر باپ کو ضرورت ہو تو وہ قطعہ زمین اپنے لیے رکھ سکتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے ’’ ’’تو اور تیرا مال باپ کے لیے ہے۔‘‘ لیکن باپ کی طرف سے اس قسم کی ضرورت کا اظہار کئے بغیر بھائی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ
Flag Counter