Maktaba Wahhabi

282 - 306
کسی شرعی عذر کے بغیر طلاق طلب کرنے والی عورت کا حکم سوال۔میری ایک خالہ انتہائی نیک سیرت ہے، ہم ظاہری طور پر اس کو دیندار تصور کرتے ہیں جبکہ اس کا باطن اللہ بہتر جانتا ہے۔اسے ایک نوجوان نے نکاح کا پیغام بھیجا جو کہ ہمارا قریبی رشتہ دار ہے۔میری خالہ نے بھی اس پیغام پر رضا مندی ظاہر کردی۔پھر بعض مجبوریوں کی وجہ سے ان دونوں کی شادی نہ ہوسکی۔اس نوجوان نے اس صورتحال کے پیش نظر میری خالہ کاخیال دل سے نکال دیا اور وہ ملازمت وغیرہ کی غرض سے کسی اور علاقہ میں منتقل ہوگیا۔میری خالہ اس پر شرمندہ بھی ہوئی اور اس نے اس بات کو محسوس بھی کیا۔کچھ مدت گزرنے کے بعد ایک اور نوجوان نے نکاح کا پیغام بھیجا جو بظاہر شریف النفس اور دیندار ہے جبکہ اس کے باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔یہ نوجوان پہلے سے شادی شدہ تھا اور پہلی بیوی سے اس کے تین بچے بھی ہیں۔ان دونوں کی شادی ہوگئی۔ شادی ہوئے تقریباً 9 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔لیکن میری خالہ اس شادی سے خوش نہیں اور نہ ہی اسے قبول کرنے کی کوشش کررہی ہے۔وہ کبھی بھی اپنے خاوند سے طلاق لے کر کسی اور جگہ شادی کرنے کاپروگرام بناتی ہے۔کیا اس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے یا وہ ایسا کرنے سے گناہگار ہوگی ؟یاد رہے کہ وہ اس معاملہ میں اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتی۔ جواب۔میرا خیال یہ ہے کہ آپ اپنی خالہ کو اچھے طریقہ سے سمجھائیے کہ وہ بلاوجہ اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔آپ اُسے صبر وتحمل سے کام لینے کی تلقین کریں اور یہ کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی عورت نے بغیر وجہ کے طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔‘‘[1] اگر اس کا خاوند دونوں بیویوں کے درمیان برابری کا سلوک کررہا ہے،اسے نان ونفقہ بھی ادا کررہاہے اور اس کے ساتھ اچھے طریقہ سے زندگی گزاررہا ہے اور آپ کی خالہ نے اپنے خاوند میں ایسی کوئی چیز بھی نہیں دیکھی جو اس کو واقعتاً پریشان کردینے والی ہو یابُرے
Flag Counter