Maktaba Wahhabi

268 - 306
اگر بعض ضروریات کے پیش نظر گھروں کا خرچہ ایک جیسا نہ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ جب ایک خاندان کے افراد زیادہ ہوں گے تو اس کا خرچ بھی زیادہ ہو گا لیکن یہ ملحوظ خاطر رہے کہ افراد کی تعداد پر خرچ زیادہ ہوگا،سہولیات میں عدل وانصاف آپ کے ذمہ واجب ہے۔(عبدالکریم الخضر) دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت سوال۔ کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟ جواب۔یہ سوال ’’علماء کمیٹی برائے فتاوی’‘ کے سامنےپیش کیا گیا تو انھوں نے مندرجہ ذیل جواب دیا۔ ’’اگر کوئی شخص دوسری شادی کرنا چاہے تو اس کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے، مگر حسن اخلاق اور باہمی تعاون کا تقاضا ہے کہ وہ اس کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔حسن معاشرت کا تقاضا ہے کہ وہ اس کو دوسری شادی پر راضی کرے، چاہے اس کے لیے کچھ مال خرچ کرنا پڑے۔ اس کی رضا مندی سے اس کا دکھ کم ہوگا۔ کیونکہ عورتوں کی فطرت یہ ہے کہ وہ خاوند کی دوسری شادی کو پسند نہیں کرتیں۔ پہلی بیوی کو اچھی بات، بہترین سلوک اور پیار و محبت سے خوش کیا جا سکتا ہے۔(فتاوی کمیٹی سعودی عرب) نوٹ٭: میں مترجم عرض کررہا ہوں کہ اسلام نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر یہ شرط بھی عائد کردی ہے کہ اگر بیویوں کے درمیان انصاف نہ کرسکتا ہو تو پھر ایک ہی شادی کرے۔ ہمارے ہاں دوسری شادی کو معیوب خیال کیا جاتا ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والا عموماً ناانصافی کا مظاہرہ کرتا ہے۔وہ پہلی بیوی کے حقوق پامال کرتا ہے اور اس معاملہ میں انصاف سے کام نہیں لیتا۔ اگر بے انصافی کا خطرہ نہ ہو تو پھر ایک سے زیادہ شادیاں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔عرب ممالک میں ماحول قدرے کھلا ہے، وہاں دوسری شادی کرنا اور اسی طرح بیوہ سے نکاح کرنا معیوب نہیں ہے۔ راقم الحروف نے مدینہ یونیورسٹی کے زمانہ میں دو واقعات
Flag Counter