Maktaba Wahhabi

270 - 306
کہ شاید میرے والدین کہیں میری شادی کی بات طے کرنے لگے ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم آپس میں گہری سہیلیاں ہیں اور ہماری محبت بھی شدید ہے، پھر یہ شادی تو ہماری جدائی کا ذریعہ بن جائے گی۔ وہ اس معاملہ میں سوچنے لگیں کہ آخر ایسا کون سا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ہم چاروں زندگی بھر ایک ہی جگہ رہیں تو ان میں سے ایک کہنے لگی، میرے دماغ میں ایک آئیڈیاہے بشرطیکہ تم سب اس سے اتفاق کرو۔اگر ہم چاروں اسی نوجوان سے شادی کرلیں جو ہمیں سکول چھوڑنے آتا ہے، یہ غریب ہے تو کیا ہواباکردار اور بااخلاق ہے۔ان چاروں کو یہ مشورہ پسندآیا۔ انھوں نےاپنے اپنے والدین سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ اگر تمھیں اعتراض نہیں تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں۔ انھوں نے اس نوجوان کو شادی کا پیغام دیا، تو اس نے کہا۔ تم چاروں مجھے غریب سمجھ کر مذاق کر رہی ہو؟ وہ بولیں((و اللّٰه هذه حقيقة ولا نستهزي بك))اللہ کی قسم !یہ حقیقت ہے اور ہم آپ سے قطعاً مذاق نہیں کر رہی ہیں۔نوجوان نے موقع غنیمت جانا اور ہاں کردی۔ ان چاروں نے مل کر ایک فلیٹ خریدا جو چار کوارٹروں پر مشتمل تھا اور اس نوجوان سے شادی رچالی اور ایک ہی بلڈنگ میں ایک ہی فیملی کی طرح زندگی کے ایام بسر کرنے لگیں۔ پہلی بیوی کی باری والے دن دوسری کے بچوں کو پڑھانا سوال۔ میری دو بیویاں ہیں اور الگ الگ گھروں میں رہائش پذیر ہیں۔ کیا میں پہلی بیوی کی باری والے دن دوسری بیوی سے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے جا سکتا ہوں، جب وہ سکول سے واپس آئیں؟ جواب۔یہ آپ کے لیے جائز نہ ہوگا کیونکہ یہ پہلی بیوی کی باری کا دن ہے اور آپ کے لیے ایسا کرنا حرام ہے۔ آپ کو چاہیے کہ پہلی بیوی کی باری والے دن اسی بیوی کے بچوں کو پڑھائیں،یہ ان کا آپ پر حق ہے۔(محمد بن صالح العثیمین) سوال۔اگر خاوند پہلی بیوی سے کسی شرعی سبب کی بناء پر ناراض ہو تو کیا اس کی باری والے دن دوسری کے پاس جا سکتا ہے؟ یا پھر ناراضگی کے باوجود اسی کے پاس رہنا ہوگا؟ جواب۔اللہ نے بیویوں کے درمیان عدل وانصاف قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدل کا
Flag Counter