Maktaba Wahhabi

287 - 306
سماع پر محمول ہوتی ہے۔[1] اس اثر سے معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ خلع کو فسخ سمجھتے تھے لہذا وہ اس کے بعد دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح کو جائز سمجھتے تھے،یعنی((طلقها تطليقا)) کی رو سے اگر شوہر ایک طلاق دے بھی دے توپھر بھی فسخ ہے۔ ثقہ تابعی میمون بن مہران نے فرمایا: (يتزوجها ويسمي لها مهراً جديداً) [2] ’’وہ اگر چاہے تو نکاح کرے گا اور نیا حق مہر باندھے گا۔‘‘ امام ابن شہاب الزہری نے فرمایا: ’’اس نے(اگر) جو رقم اس عورت سے لی ہے تو اس سے کم حق مہر کے ساتھ اس سے نکاح نہ کرے۔‘‘ (حافظ زبیر علی زئی)[3] مہر کی رقم سے زیادہ ادائیگی پر خلع سوال۔مرد نے جس قدر مہر دیا ہو کیا اس سے زیادہ رقم ادا کرکے عورت خلع لے سکتی ہے؟ جواب۔خاوند نے جو مہر دیا ہے اگرعورت اس سے زیادہ رقم ادا کرنے کی پیشکش کرکے خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو خاوند کو چاہیے کہ زائد رقم وصول نہ کرے،اگراس نے ایساکیا تو اس نے مکروہ کام کا ارتکاب کیا،مگر خلع صحیح ہوگا کیونکہ ان دونوں کی رضا مندی سے خلع کا عمل وقوع پزیر ہوا ہے۔اکثر علماء کا یہی خیال ہے اور یہ مؤقف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،۔عکرمہ، مجاہد،نخعی،مالک،شافعی رحمۃ اللہ علیہم اور اصحاب رائے کا بھی یہی خیال ہے۔(واللہ اعلم) (محمد بن ابراہیم آل شیخ) بے دین شوہر سے خلع سوال۔اگر خاوند بے دین اور اللہ کی قائم کردہ حدود کو پامال کرنے والا ہوتو کیا اس سے خلع لینا صحیح ہے؟جبکہ مجھے بعض عورتوں نے کہا کہ ایسے خاوند سے خلع لینا واجب ہے۔
Flag Counter