Maktaba Wahhabi

247 - 306
یہی شرعی فیصلہ ہے۔ پھر فاروقی رضی اللہ عنہ میں جب لوگوں نے کثرت کے ساتھ اکٹھی تین طلاقیں دینا شروع کردیں تو انھوں نے بطور سزا وتعزیر تینوں طلاقیں لاگو کردیں، تاکہ لوگ اس عمل سے باز آجائیں۔ یہ حکم سیاسی اور تہدیدی تھا اور یہ شرعی نوعیت اختیار نہیں کر سکتا۔ اور یہ بات حنفی علماء کے ہاں مسلم ہے، جیسا کہ فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں یہ بات منقول ہے: (انه كان في الصدر اول اذا ارسل الثلاث جمله لم يحكم الا بوقوع واحدة الي ذمن عمر رضي اللّٰه تعاليٰ عنه ثم حكم بوقوع الثلاثه سياسة لكثرته بين الناس)[1] ’’ابتدائی دور میں جب اکٹھی تین طلاقیں بھیجی جاتی تھیں تو ان پر صرف ایک کا حکم لگایا جاتا تھا، یہ فیصلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے تک ہوتا رہا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیاسی طور پر تین کے وقوع کا حکم دیا، اس لیے کہ یہ عمل لوگوں کے درمیان کثرت سے واقع ہونے لگا تھا۔‘‘ مجمع الانهر میں ((سياسة )) کی بجائے ((تهديدا))کا لفظ ہے، یعنی ڈرانے دھمکانے کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تین جاری کردی تھیں، لیکن شرعی طور پروہ ایک ہی طلاق ہوتی ہے، جو عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں تھی، بلکہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے دور کی ابتداء میں معاملہ اسی طرح تھا۔سو جس طرح نکاح میں تین بار ایجاب و قبول سے تین نکاح نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی ہوتا ہے، اسی طرح تین بار طلاق کے الفاظ دہرانے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے،تین نہیں۔ لہذا معلوم ہوا کہ صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہیں،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد کے ابتدائی دو سالوں کے بعد جب انھوں نے تین لاگو کر دیں تو یہ ایک تعزیری فیصلہ تھا اور تعزیر حاکم وقت کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے، جبکہ قانون و دستور،جو شریعت میں موجود ہے وہ اٹل ہوتا ہے،وہ نہیں بدل سکتاہے۔
Flag Counter