Maktaba Wahhabi

133 - 306
مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ دعوت دین میں اس قدر مشغول ہو جائے کہ اپنے بیوی بچوں کو بھول ہی جائے اور ان کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرے اور یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے اہل وعیال میں اس قدر مگن ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے دین اور دعوت کو پس پشت ڈال دے، اسے چاہیے کہ وہ درمیانی راہ اختیار کرے اور حقوق کی ادائیگی میں کمی یا زیادتی سے بچنے کی کوشش کرے۔ ’’حضرت عبید اللہ بن زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عیادت کی جبکہ وہ مرض الموت میں مبتلا تھے۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ میں تمھیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھی ہے پھر کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ جس آدمی کو اللہ نے رعایا کانگران بنایا اور اس نے خیر خواہی کے ذریعے ان کی اصلاح نہیں کی تو وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم ہو جائے گا۔‘‘[1] اور حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس (کی ذمہ داری) کے متعلق سوال ہوگا۔ پس حاکم وقت ذمہ دار ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا، اور آدمی اپنے اہل وعیال کا ذمہ دار ہے اس سے ان کے متعلق سوال ہوگا،اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے متعلق سوال ہوگا، خبردار تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس (کی ذمہ داری) کے متعلق سوال ہوگا۔‘‘[2] بہت سی عورتیں چاہتی ہیں کہ ان کا خاوند گھر سے باہر ہی نہ نکلے حتی کہ نماز کی ادائیگی کے لیے بھی نہ جائے ایسی عورت کہاں پسند کرے گی کہ اس کا خاوند دعوت دین کاکام کرے؟ کسی عورت کا مشہور قول ہے کہ ’’میرے لیے میرے خاوند کی لائبریری کے بدلے تین سوتنوں کو
Flag Counter