Maktaba Wahhabi

115 - 306
ہے،اس سے مراد حلالہ قطعاً نہیں ہے۔اس آیت میں تونکاح صحیحہ کا بیان ہے کہ وہ عورت کسی اور جگہ شادی کرواسکتی ہے اور اگر وہ دوسراشوہر اپنی مرضی سے طلاق دے ڈالے،یا فوت ہو جائے تو عدت گزرجانے کے بعد اگر پہلا آدمی اور یہ عورت دوبارہ واپس آنا چاہیں اور یقین ہوکہ اب وہ حدود اللہ کو قائم رکھ سکیں گے تو اکٹھے ہوسکتے ہیں۔جبکہ حلالہ میں دوسرے آدمی سے شادی اس غرض سے کی جاتی ہے کہ اس سے طلاق لے کر پھر پہلے کے ساتھ نکاح کردیاجائے،اس نکاح کو تو کوئی غیرت مند آدمی قبول نہیں کرسکتا۔جو لوگ حلالہ کو صحیح نکاح پر تصور کرتے ہیں وہ یا تو حلالہ کےمفہوم سے بے خبر ہیں،یا تجاہل عارفانہ برتتے ہیں۔ لغت حدیث کی مشہور کتاب ’’النهاية في غريب الحديث والاثر(1/431)‘‘میں مرقوم ہے: ’’حلالہ یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالے،پھر دوسرا آدمی اس عورت کے ساتھ اس شرط پر نکاح کرے کہ اس کے ساتھ صحبت کرکے طلاق دے دے گا،تاکہ پہلے آدمی کے لیے حلال ہوجائے۔ ’’حلالہ کی یہی تعریف ’’القاموس الفقهي(ص 100)’‘میں بھی لکھی گئی ہے جو احناف کی فقہی اصطلاحات پر بڑی ضخیم کتاب ہے اور القاموس المحيط، المعجم الوسيط جیسی کتب لغات میں حلالہ کا یہی معنی لیا گیا ہے۔بلکہ امام ابوحنیفہ کے معروف ترین شاگرداور فقہ حنفی کی کمیٹی کے عظیم رکن امام محمد نے کتاب الآثار (878) میں حلالہ کے بارے میں لکھا ہے ’’ایک مرد اپنی عورت کو تین طلاقیں دے،پھر چاہے کہ اس کا کسی دوسرے مرد سے نکاح کردے تاکہ وہ اس کو اس کے لیے حلال کردے۔‘‘[1] پس معلوم ہوا کہ حلالہ میں طلاق کی غرض سے نکاح کیاجاتا ہے تاکہ عورت پہلے شوہر کی طرف واپس پلٹ آئے۔حلالہ کرنے والا ایسی عورت کے ساتھ ایک دن، دودن یا چند ایام گزارےاپنی جنسی خواہش پوری کرکے طلاق دے ڈالے،تاکہ وہ پہلے شخص کے لیے حلال ہو
Flag Counter