Maktaba Wahhabi

111 - 306
اور کمرے کے ایک کونے میں رکھ دیا۔ میں یہ سوچنے پہ مجبور ہو گئی کہ میں نے ایک فرشتہ صفت انسان کا دل دکھایا ہے، اس کے ارمانوں کا خون کیا ہے، میں قطعاً معافی کے قابل نہیں۔ میں جس کو دوست سمجھتی رہی وہ تو آستین کا سانپ نکلا۔ یہ میں نے کیا کر دیا؟ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے،اب میں برے انجام سے کبھی بھی نہیں بچ سکتی۔ رات اسی پریشانی میں گزرگئی۔ یہ ستائیسواں دن تھا، میرے خاوند نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، میں نے اجازت دے دی۔ میرے خاوند کے ہاتھ میں بڑے بڑے دو لفافے تھے، جو اس نے میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا: ’’مہینہ ختم ہونے کو ہے لگتا ہے کہ آپ کو میرے ساتھ رہنا پسند نہیں۔ ان لفافوں میں کچھ سلے اور کچھ ان سلے کپڑے اور کچھ نقدی بھی ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ عورت کو کچھ نہ کچھ دے دلا کر رخصت کرو، میں آپ کی خواہش کے مطابق آپ کو طلاق دینے کے لیے تیار ہوں، آپ جب کہیں گی میں آپ کو طلاق دے دوں گا۔ اگر اپنے گھر جانے کے بعد کہو تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا جو بھی آپ کا فیصلہ ہو، آپ مجھے آگاہ کردیں۔‘‘ وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا اور مجھے احسان کے بوجھ تلے دبا گیا۔ مجھے اپنے آپ سے گھن آنے لگی کہ میں کس قدر ظالم ہوں؟ کس قدر بے مروت اور بد اخلاق ہوں؟ میں نے اس مؤمن نوجوان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ میں نے ایک شیطان کی خاطر ایک فرشتے کا دل دکھایا اور اس کو اس قدر دکھ دیا جسے وہ زندگی بھر نہ بھلا سکے گا۔ میں نے اس کی سب سے بڑی خوشی کو برباد کر ڈالا۔ میں ایک ایک دن کو یاد کر کے کف افسوس مل رہی تھی مگر اب پچھتائے کیا بنتا ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ میں نے سارا دن سسکتے ہوئے گزارا، کبھی دل چاہتا کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر دوں مگر خود کشی کے حرام ہونے کا سوچ کر اپنا ارادہ تبدیل کرنا پڑتا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیاکروں اور کدھر جاؤں؟ میں نے اپنے لیے تمام دروازے خود ہی بند کرلیے تھے۔ رات کاکافی حصہ گزر چکا تو اچانک مجھے ایک جائے پناہ نظر آئی، سب دروازے بند مگر ایک دروازہ کھلا نظر آیا، میں بڑی مشکل سے اٹھی،وضو کیا اور دو رکعت نماز
Flag Counter